Monday, April 28, 2025

پہلگام کہانی

 پہلگام کہانی

اظہر عباس

منگل کے روز جموں کشمیر کے شمال مشرقی علاقے پہل گام میں نامعلوم افراد نے سیاحوں پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کر دی۔ دہشت گردی کے اس واقعے میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق دو غیر ملکی شہریوں سمیت 28افراد مارے گئے ۔حالیہ برسوںمیں امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کے بعد متنازع علاقے میں یہ ایک بڑا واقعہ ہے۔بھارتی حکومت نے بغیر کسی تصدیق یا دستاویزی ثبوت کے حملے کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کر دی۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے سعودی عرب کا دورہ مختصر کر کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے متعدد اقدامات کا اعلان کیا۔ سندھ طاس معاہدے کو عارضی طور پر معطل کر دیا گیا۔ تمام پاکستانی شہریوں کے ویزے منسوخ کر کے ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ متعدد پاکستانی سفارت کاروں کو ناپسندیدہ قرار دے دیا
ہندوستان ابھی تک پاکستانی مداخلت کا کوئی واضح ثبوت پیش نہیں کر سکا لیکن پاکستان کے پاس دیگر متعدد شواہد کے ساتھ ساتھ کلبھوشن یادیو کی صورت میں ایک بین ثبوت موجود ہے ۔ انڈین انٹیلی جنس نے پاکستان میں اتنا اثرورسوخ بڑھا لیا ہے کہ عسکریت پسندوں کی سپورٹ کے علاوہ اب انہوں نےپاکستان میں مختلف شخصیات کو بھی ٹارگٹ کرنا شروع کر دیا ہے اور گزشتہ چند سال کے اندر پاکستان میں متعدد انڈیا مخالف جہادی شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا ۔ہندستان اس معاملے میں اتنا آگے بڑھا کہ اس نے کینیڈا جیسے ملک میں سکھ رہنما کو قتل کیا جسکی وجہ سے کینیڈا نے اپنے ملک سے اس کے سفیر کو بے دخل کیا لیکن سدھرنے کی بجائے نریندرمودی روز بروز پینترے بدل کر جارحیت کے نئے طریقے ایجاد کررہا ہے ۔
پہلگام کے واقعے کے بارے میں تو پاکستان کا موقف ہے بلکہ خود انڈیا کے اندر بہت سارے لوگوں کا موقف ہے کہ یہ فالس فلیگ آپریشن تھا ۔ اس کی ایک دلیل یہ دی جارہی ہے کہ وقف املاک بل سے پیدا ہونے والی صورت حال کو ڈیفیوز کرنا مقصود تھا ۔ دوسرا حملہ اس وقت کیا گیا جب امریکہ کے نائب صدر ہندوستان کے دورے پر تھے ۔ جب یہ واقعہ ہوا تو پاکستان نے اس کی مذمت کی (واضح رہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے بڑے سے بڑے واقعات کی انڈیا مذمت نہیں کرتا) لیکن انڈین میڈیا اور بی جے پی نے فوراً بغیر کسی تحقیق کے یہ پروپیگنڈا شروع کیا کہ اس کا ذمہ دار پاکستان ہے حالانکہ اب مقبوضہ کشمیر کے باسی اور انڈیا کے بعض ذی شعور لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ جب عسکریت پسند پاکستان سے آرہے تھے تو مقبوضہ کشمیر میں تعینات سات لاکھ فوجی کہاں تھے
پہلگام فالس فلیگ واقعے پر بھارتی پولیس اسٹیشن میں درج مقدمے نے مودی حکومت کا جھوٹ بے نقاب کر دیا، فالس فلیگ آّپریشن کی ایف آئی آر نے حملے کو مشکوک بنا دیا، دس منٹ کے اندر اندر ایف آئی آر درج ہونا پہلے سے بنے بنائے منصوبے کا اشارہ دیتا ہے۔ رپورٹ میں سیکیورٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ پہلگام پولیس اسٹیشن جائے وقوعہ سے چھ کلومیٹر کی دوری پر ہے، ایف آئی آر کے مطابق پہلگام حملہ ایک بج کر پچاس منٹ سے دو بج کر بیس منٹ تک جاری رہا۔سیکیورٹی ذرائع کے مطابق حیران کن طور پر حملے کے صرف دس منٹ بعد، یعنی ڈھائی بجے ایف آئی آر درج کی گئی، دس منٹ کے اندر اندر ایف آئی آر درج ہونا پہلے سے بنے بنائے منصوبے کا اشارہ دیتا ہے۔ذرائع کے مطابق ایف آئی آر میں پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت نامعلوم سرحد پار دہشت گردوں کو نامزد بھی کردیا جاتا ہے، ایف آئی آر کہتی ہے کہ مبینہ دہشت گردوں کی طرف سے اندھا دھند فائرنگ کی گئی جبکہ انڈین گورنمنٹ اور میڈیا ٹارگیٹڈ کلنگ کا جھوٹا راگ الاپتا رہا۔
حقیقت جو بھی ہے لیکن جنونی مودی کو ایک بہانہ ہاتھ آگیا ۔ وہ دورہ سعودی عرب مختصر کرکے انڈیا پہنچے اور سیکورٹی کونسل کا اجلاس منعقد کرکے سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا۔پاکستانیوں کے ویزے کینسل کرنے کا اعلان کیا ۔ پاکستانی سفارتخانے کےا سٹاف میں کمی کردی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سندھ طاس معاہدے کو معطل کیا، جس کا ورلڈبینک ثالث ہے اور انڈیا اسے یکطرفہ طور پر ختم نہیں کر سکتا
سابق سفیر حسین حقانی کا اس صورتحال میں کہنا ہے کہ باقی دنیا کا رویہ ہے کہ تم لوگوں کو ہر دو چار سال بعد اس طرح کا دورہ پڑتا ہے اور ہم کو سنبھالنے کے لیے آنا پڑتا ہے۔ ٹرمپ دوسرے ممالک کے معاملات میں امریکہ کے کردار کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ خاص طور پر اس میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ مجھے ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا کہ امریکہ دونوں ممالک کو فون کرے اور کہے بھائی ٹھنڈے ہو جاؤ اگر ایسا ہوا تو کسی تیسرے فریق کو ڈھونڈنا پڑے گا جیسے ترکی، سعودی عرب وغیرہ وغیرہ جس کے دونوں سے اچھے تعلقات ہیں۔ وہ ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دے رہے تھے۔
جبکہ اسی پروگرام کے دوران چیئر مین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا کہ کشمیر میں دہشتگردی ہو تو اسے دیکھنے سے پہلے ہی پاکستان پر الزام لگا دیتے ہیں۔ بھارت دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ ہمارے خطے میں مغربی ممالک کے اپنے مفادات ہیں۔ اگر بھارت دہشت گردی ختم کرنا چاہتا ہے تو اسحاق ڈار کی دعوت پر مذاکرات کرتا۔ جعفر ایکسپریس واقعہ کی بھارت مذمت نہیں کرتا۔ حالیہ اقدامات سے بھارت اندرونی اور بین الاقوامی طور پر تنہا ہوگا ۔
انکا دریائے سندھ اور سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی پر ایک جلسے سے خطاب میں کہنا تھا کہ "بھارت نے اپنی کمزوری چھپانے اور اپنے عوام کو بےوقوف بنانے کے لیے دہشت گردی کا الزام پاکستان پر لگایا ہے، ہم بھارت کو بتانا چاہتے ہیں کہ دریائے سندھ ہمارا ہے اور ہمارا رہے گا اس میں ہمارا پانی بہے گا یا اُن کا خون بہے گا۔"
جبکہ سب سے اہم بیان امریکی صدر کا آیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی کشیدگی پر کہا ہے کہ وہ دونوں ممالک کے رہنمائوں کو جانتے ہیں‘دونوں کشیدگی کا معاملہ خود ہی حل کرلیں گے ، ڈونلڈ ٹرمپ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہوئے حملے پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ "یہ ایک بہت برا حملہ تھا۔ بھارت اور پاکستان کی سرحد پر ہمیشہ سے تناؤ رہا ہے، میں دونوں رہنماؤں کو جانتا ہوں، وہ اسے کسی نہ کسی طرح حل کر لیں گے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بہت زیادہ تناؤ ہے، لیکن یہ تناؤ ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔صدر ٹرمپ نے پاک بھارت رہنماؤں سے رابطہ کرنے کے سوال کا جواب دینے سے گریز کیا۔
سوال یہ ہے کہ انڈیا مزید کچھ کرے گا یا پھر انہی اقدامات پر اکتفا کرے گا ؟ غالب رائے یہ ظاہر کی جارہی ہے کہ انہی پر اکتفا کرکے پاکستان کے اندر پراکسی وار کو تیز کرے گا۔ میزائل فائر کرنے کا امکان بھی کم ہے کیونکہ اسے علم ہے کہ پاکستان بھی میزائل حملے کی صورت میں جواب دے گا پھر کیا انڈیا سٹرائک کرئے گا ۔ میرے نزدیک اس کا جواب بھی نفی میں ہے کیونکہ ابھینندن کے منہ میں ابھی تک پاکستان ایئرفورس کی چائے کا ذائقہ موجود ہے اور اتنی جلدی انڈین پائلٹ دوبارہ پاکستان میں Fantastic چائے نہیں پینا چاہیں گے۔

Friday, April 4, 2025

ذوالفقار علی بھٹو - قیدٰی نمبر ’1772‘

 4اپریل 1979ء پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین، ملک کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی کا آخری دن، جب رات کے دو بجے انہیں تختہ دار پر چڑھا کر میٹھی نیند سُلا دیا گیا۔ وجہ تھی قتل۔ 18 مارچ 1978ء کو بھٹو کو لاہور ہائی کورٹ نے نواب محمد احمد کے قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی تھی، جس کے بعد بھٹو نے کوٹ لکھپت جیل کے4اپریل 1979ء پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین، ملک کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی کا آخری دن، جب رات کے دو بجے انہیں تختہ دار پر چڑھا کر میٹھی نیند سُلا دیا گیا۔ وجہ تھی قتل۔ 18 مارچ 1978ء کو بھٹو کو لاہور ہائی کورٹ نے نواب محمد احمد کے قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی تھی، جس کے بعد بھٹو نے کوٹ لکھپت جیل کے قیدٰی نمبر ’1772‘ کی حثیت اختیار کر لی۔

کون جانتا تھا کہ نواب محمد کا قتل پاکستان کی سیاسی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے بد ل دے گا۔

آج بھٹو کو دنیا سے رخصت ہوئے 46 برس ہو گئے لیکن وقت نے ثابت کر دیا کہ زندہ بھٹو سے شہید بھٹو زیادہ طاقت ور ہو گیا ہے۔

ذیل میں بھٹو کی وزیرِ خارجہ کی حثیت سے مختصراً اور بیگم نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو سے آخری ملاقات کے بارے میں تفصیلات ملاحظہ کریں۔

وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے معرکہ خیز زندگی

ذوالفقار علی بھٹو، تیسری دنیا کا ایک ایسا لیڈر جس نے ناصرف پاکستان کے عوام کے دلوں میں گھر کیا بلکہ وزیر خارجہ کی حیثیت سے معرکہ خیز زندگی گزاری، خارجہ پالیسی میں تصور رکو عملی طور پر جگہ دی اور یہ بتایاکہ دنیا مسلسل حرکت اور تیزی سے بروقت، صحیح فیصلے کرنے کی جگہ ہے اور پاکستان جیسے ملک کو اپنی پالیسیوں کو دنیا کی رفتار کار سے ہم آہنگ رکھنا چاہیے۔ وہ جمال عبدالناصر، سوئیکارنو اور چواین لائی جیسے عالمی سربراہوں کا تذکرہ اس لیے محبت اور احترام سے کرتے تھے کہ یہ تنیوں تیسری دنیا میں سامراجی دباؤ کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوگئے تھے۔ 

یہ حقیقت ہے کہ، ذوالفقار علی بھٹو نے خاص طور پرتیسری دنیا کے قائد کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ جب انہوں نے وزارت خارجہ کا قملدان سنبھالا تو پاکستان خارجہ پالیسی کے لحاظ سے امریکہ کی طفیلی ریاست بن کر رہ گیا تھا۔ انہوں نے اس جمود کو توڑا اور چین کے ساتھ پاکستان کے ایسے تعلقات کی بنیاد رکھی جن کے کچھ اثرات 1965ء کی جنگ میں چین کی طرف سے بھارت کو الٹی میٹم دیئے جانے کے بعد پاکستان کی حفاظت اور دفاع کا باعث بنے۔ 

’امن کی تلاش کی کوشش کروں گا، خواہ اس کیلئے میری زندگی ہی کیوں نہ چلی جائے‘

اگست1996ء میں انہوں نے عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ پی آئی اے کے لئے ائر سروس کے ایک معاہدے پر دستخط کئے اور یوں عوامی جمہوریہ چین میں پہلی غیر ملکی ائر سروس کے اجرا کو عملی طور پر ممکن کر دکھایا۔ جب انہیں تیل اور قدرتی وسائل کی وزارت سونپی گئی تو انہوں نے روس کے ساتھ ایک ایسے سمجھوتے کو ممکن بنادیا جس سے پاکستان کو نہ صرف وسیع البنیاد فوائد حاصل کرنے کا آغاز ہوا بلکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک اہم اور مثبت تبدیلی کے آثار بھی نمایاں ہوئے۔

امریکہ نواز وزیر خزانہ مسٹرشعیب کی سخت مخالفت کے باوجود انہوں نے روس کے ساتھ تیل دریافت کے جس سمجھوتے کو پاکستان کی شرائط پر آخری شکل دینے میں کامیابی حاسل کی اس نے بھٹو کو دنیا بھر میں ایک آزاد قوم پرست وزیرخارجہ کی حیثیت سے شہرت دی۔

1964ء میں پاکستان کا جکارتہ میں ایفروایشین کانفرنس، میں شریک ہونا اوربن بیلا کا تختہ الٹے جانے کے باوجود اجلاس کو ممکن کر دکھانا صرف جناب بھٹو کا ہی مرہون منت تھا اور یہ پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا۔ الجیربا، جہاں اس کانفرنس کا انعقاد طے تھا، بغاوت کے نتیجے میں گولیوں اور آگ کے شعلوں کی زد میں تھا ،اس عالم میں  بھٹو، ایوب خان کے منع کرنے کے باوجود وہاں پہنچے اور کانفرنس کو سبوتاژ ہو نے سے بچا کر تیسری دنیا کی آنکھ کا تارہ بن گئے۔ اس کانفرنس کے حوالے سے بیرونی ْ اخبارات نے لکھا :۔

’’تمام ملکوں میں پاکستان نے ہی مرکزی کردار ادا کیا اور مسٹر بھٹو مصالحت کے معمار بن کرابھرے‘‘۔

یہ حقیقت ہے کہ وزیر خارجہ بننے کے بعد صرف اڑھائی برس کی مدت میں وہ تیسرے دنیا کی خارجہ پالیسی کے اُفق پر ہر طرح سے چھاگئے تھے۔

ذوالفقار علی بھٹونے ملک و قوم کے ان نازک لمحات میں جرأت مندانہ اور وقت کی نزاکت سے ہم آہنگ فیصلے کئے جب ہر طرف شکست اور تباہی کے آثار نمایاں تھے، انہوں نے اعلیٰ قائدانہ صلاحتیوں کامظاہرہ کیا اور ایسی فضا پیدا کی کہ قوم کے ٹوٹے پھوٹے ڈھانچے میں جان پیدا ہونے لگی عوام اور کارکنوں میں اعتماد بحال کیا۔ انہیں پکار پکار کر کہا:

’’آگے بڑھو۔ ہمت کرو۔ ہم اس صورت حال کا سامنا کرکے اسے اپنے حق میں تبدیل کردیں گے‘‘

انہوں نے ناقابلِ شکست ارادوں کے ساتھ رات دن کام کیا۔ ملکی تعمیر کے لئے متعدد منصوبے بنائے۔ انقلابی اصلاحات کیں۔جب 27؍جون 1972ء کو قائد عوام نے بھارت میں اسیر 90ہزار پاکستانی فوجیوں کی رہائی اور بھارتی قبضے میں موجود چھ ہزار مربع میل علاقے کی بازیابی کے لئے شملہ کا رخ کیا تو اس وقت پاکستان اور بھارت کی پوزیشن عجیب طرح کی تھی۔ بھارتی قیادت فتح کے نشے میں مدہوش تھی۔ اس لمحے قائد عوام نے کہا تھا:

’’امن کی تلاش کی کوشش کروں گا خواہ اس کے لئے میری زندگی ہی کیوں نہ چلی جائے‘‘۔

انہوں نے دانشورانہ سیاسی مہارت کے ساتھ شملہ معاہدے پر دستخط ہونے تک کا ایک ایک لمحہ گزارا۔ شملہ معاہدے سے پہلے مری میں ابتدائی بات چیت کے دوران مسٹر ڈی پی دھرنے پاکستان کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کی نیت سے کشمیر، جنگ نہ کرنے، تجارت، فوجی برتری اور مقبوضہ علاقوں کے معاملات کو ایک ساتھ اپنی شرائط پر طے کرانے کے ارادے سے علامتی انداز میں جناب بھٹو سے کہا تھا:

’’بھارتی ایک ہی بار معاہدے۔ یعنی پھولوں کا گلدستہ چاہتے ہیں‘‘۔

مارچ 1972ء کے ان تاریخی مذاکرات میں بھٹو نے ڈی پی دھر کے اس جملے کا جواب اسی انداز میں دیتے ہوئے کہا تھا:

’’نہیں ۔ نہیں ۔ ایک وقت میں ایک پھول‘‘

شملہ معاہدہ اپنے متن، الفاظ کی ہنر کاری اور پاکستانی مفادات کا اس قدر آئینہ دار تھا کہ بھارتی قیادت کو دیر تک اپنے میڈیا کا سامنا کرنا مشکل بنا رہا۔ وہ اپنے عوام کے مزاج سے کسی بھی دوسرے سیاسی راہنما سے کہیں زیادہ آشنا تھے۔ وہ عوام سے اپنی بات منوانے اور محبت سے اپنے خیالات کا علمبردار بنانے کے فن سے آگاہ تھے۔

عوام ان سے پیار کرتے تھے تو وہ بھی ان کی فلاح و بہبود کے لئے اندرون ملک اور بیرون ملک طاقتوں سے دل و جان سے لڑے اور اس طرح لڑے کہ جان سے گزر گئے۔ جس جرأت کے ساتھ زندگی گزاری اس جرأت کے ساتھ موت کو قبول کیا۔ اٹھارہ مہینے کی قید کے دوران کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آیا جب ان کے قدم ڈولے۔ بھٹو کے جسم کو ختم کر دینا ممکن تھا لیکن جسم کی قید سے آزاد بھٹو کو ختم کرنا ممکن نہیں ہو سکا۔

’ ’’بیٹی پلیز چلی جاؤ‘‘ میں تم سے کیسے مل سکتا ہوں جب عوام کو مجھ سے ملنے کی اجازت نہیں ہے

یکم اپریل کو علی الصبح ایس ایچ او کلفٹن پولیس کے ہمراہ 70 کلفٹن میں داخل ہوئے۔ 70 کلفٹن جہاں عظیم پالیسی ساز فیصلے کیے گئے۔ جہاں آمریت کے خلاف جدوجہد شروع ہوئی تھی اس وقت وہاں بے نظیر بھٹو تھیں، انہیں کو ایک کار میں بیٹھایا گیا، جس میں ایک جانب لیڈی انسپکٹر، دوسری جانب ایس پی ناظم آباد بیٹھے تھے۔

کار ایک پولیس والا چلا رہا تھا۔ ایک پولیس جیپ اس کار کے آگے تھی، اس کے پیچھے ایک انٹیلی جنس کار تھی اور دوسری انٹیلی جنس کار بے نظیر بھٹو کے پیچھے تھی۔ یہ قافلہ سیدھا ایئرپورٹ پہنچا جہاں ایک ڈی سی او اکھڑا تھا۔ جہاز کے چاروں طرف پولیس تھی۔ ایس پی ناظم آباد کے پاس بورڈنگ پاس تھا وہ سب لوگ ایس پی کی نگرانی میں جہاز کی سیڑھیوں پر چڑھ گئے، کوئی شخص بے نظیر بھٹو سے بات چیت کرسکتا تھا۔

’امن کی تلاش کی کوشش کروں گا، خواہ اس کیلئے میری زندگی ہی کیوں نہ چلی جائے‘

جب جہاز لاہور کی حدود میں اترا۔ لاہور جہاں 1966ء میں ایک نوجوان وزیرخارجہ کا نام گونج رہا تھا، جہاں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد ہوا تھا، جہاں ہنری کسنجر نے بھٹو سے کہا تھا کہ’’ میں تمہاری بھیانک مثال قائم کروں گا۔‘‘

بے نظیر بھٹو طیارے سے پہلے اتریں۔ پنچے ایک کار ان کی منتظر تھی۔ زبردست حفاظتی پہرے میں فوجی علاقے سے گزرتے ہوئے ان کی کار کوٹ لکھپت جیل کی طرف روانہ ہوئی۔ ایئرپورٹ کے باہر برطانوی امریکی ٹیلی ویژن کے نمائندے، پاکستان اور غیر ملکی اخباری نمائندے بھی انتظار میں تھے لیکن بے سود۔ بے نظیر بھٹو کی کار کوٹ لکھپت جیل پہنچی تو جیل کا آہنی پھاٹک کھلا اور کار اندر داخل ہوگئی۔ 

بے نظیر بھٹو کار سے اتر یں اور پیدل چلنا شروع کیا۔ پھانسی گھاٹ تک کافاصلہ کافی تھا لوہے کا ایک اور گیٹ آیا،دو چار قدم آگے بڑھیں، وہاں ایک اور لوہے کا گیٹ تھا، اس کے پیچھے کافی اندھیرا تھا۔ ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ انہیں یہاں کیوں لایا گیا ہے وہ ایک پولیس والے سے پوچھنا چاہتی تھیں کہ اچانک انہیں ایک آواز سنائی دی جو ان کے والد کی آواز تھی وہ کہہ رہے تھے کہ:

’’بیٹی پلیز چلی جاؤ‘‘ میں تم سے کیسے مل سکتا ہوں جب عوام کو مجھ سے ملنے کی اجازت نہیں ہے۔ میں تم سے کیسے مل سکتا ہوں۔ جب وہ مجھ سے نہیں مل سکتے تو تم بھی مجھ سے ملاقات نہ کرو۔‘‘

بے نظیر بھٹونے اپنے والد سے کہا ، میں آپ سے ملوں گی۔ کیوں کہ عوام مجھ سے آپ کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کیسے ہیں۔ وہ سکون محسوس کرتے ہیں جب میں یہ بتاتی ہوں کہ میں آپ سے ملی ہوں۔ میں جب ان سے بات کرتی ہوں تو انہیں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ میرے ذریعے آپ سے ملے ہیں۔ بے نظیر بھٹو آگے جاتی ہیں اور کوٹھری کے دروازے کی سلاخوں کو پکڑ لیتی ہیں اندھیرے میں ان کی آنکھیں دیکھنے کے قابل ہوتی ہیں۔ تو وہ اپنے باپ کو دیکھتی ہیں ان کے چہرہ مچھروں کے کاٹنے سے سرخ ہو رہا تھا وہی چہرہ جس نے حجر اسود کو چوما تھا۔

’امن کی تلاش کی کوشش کروں گا، خواہ اس کیلئے میری زندگی ہی کیوں نہ چلی جائے‘

چیئرمین نے اپنا ہاتھ باہر نکالا اور بے نظیر یہ دیکھ کر خوف زدہ ہوگئی کہ ان کا ہاتھ مچھروں کے کاٹنے سے بھرا ہوا ہے۔ کوٹھری 8x11 فٹ تھی۔ تنگ و تاریک اور بدبودار۔ یہ ملک کے پہلے منتخب صدر اور وزیراعظم کی کوٹھری تھی۔ ان کا چہرہ پرسکون تھا ، آنکھوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ بالکل مطمئن ہیں۔ ان کی ہمت، اعتماد اور سکون چہرے اور آواز سے ظاہر ہوتا تھا۔ 

انہوں نے بے نظیر کے سرپر ہاتھ پھیرا اور کہا پاکستان ایک کثیر القومی ملک ہے انہوں نے عملی سیاست میں تبدیلیوں کے بارے میں بے نظیر بھٹو کو بتایا اور مختصراً عدالت کی کارروائی سے بھی آگاہ کیا۔ چیئرمین نے کہا کہ وہ مولوی مشتاق کی بنچ سے کسی انصاف کی توقع نہیں رکھتے لہٰذا انہوں نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا تھا اور ان کو دی جانے والی سزا سے یہ ثابت ہوا کہ ان کا اندازہ صحیح تھا۔

اب ملاقات کا وقت ختم ہو رہا تھا۔ چیئرمین نے بے نظیر بھٹو کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ ’’میری بیٹی میرے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے وعدہ کرو کہ تم میرے مشن کو جاری رکھو گی۔ بے نظیر بھٹو نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ ان کی یہ خواہش ضرور پوری کریں گی۔ وہ جیل سے باہر آگئیں۔ انہوں نے پلٹ کر اس اندھیری کوٹھری کی طرف نہیں دیکھا، جہاں قوم کا قائد قید تنہائی میں موجود تھا۔

(محمود شام کی تحریر کردہ کتاب ’’بے نظیر بھٹو سے اقتباس)

بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی آخری ملاقات 

3اپریل 1979ء کو جب بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو آخری ملاقات کے لئے بلایا گیا توبے نظیر نے اپنی ایک سہیلی کو ایک خط میں لکھا، ’’ مجھے بتایا گیا ہے کہ پاپا کے ساتھ میری یہ آخری ملاقات ہے ۔ پوری کوشش کروں گی کہ بہادر بنوں اور روؤں نہیں “ ۔ مقررہ دن انہیں ایک شیورلیٹ گاڑی میں راولپنڈی پہنچایا گیا۔ 

معمول کے مطابق ان کی تلاشی لی گئی اور خاردار تار کی بنی ہوئی ایک باڑ میں سے گزار کر جیل کےاُس حصے میں پہنچایا گیا، جہاں بھٹو قید تھے۔ اس ملاقات میں دونوں ماں بیٹی نے بھٹو سے پانچ فٹ دور بیٹھ کر بات چیت کی۔ اس موقع پر ایک ہمدرد افسر نے بھٹو کو بتا دیا تھا کہ بیوی اور بیٹی سے بات کرنے کا یہ آخری موقع ہے۔

اس ملاقات میں کوئی آنسو بہا نہ کوئی سسکی سنائی دی ۔ دونوں ماں بیٹیاں پارٹی اور پاکستان کے مستقبل کے بارے میں باتیں کرتی رہیں اور قائد بھٹو ان کو حوصلے دیتے رہے۔ بھٹو نے اپنی کتاب، سلیپر، ڈریسنگ گاؤن اور دیگر ذاتی چیزیں ان کے حوالے کیں۔ آخری ملاقات ختم ہوئی، بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر کے چہروں پر غم اور اداسی چھا گئی۔ دونوں ماں بیٹیاں بھٹو سے جدا ہو کر واپس آرہی تھیں کہ دو آنسو بے نظیر کی آنکھوں سے ڈھلک گئے۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو کے لیے ’’نشان پاکستان‘‘ بھٹو ازم نظریے کی ایک اور فتح ہے، بلاول بھٹو

’امن کی تلاش کی کوشش کروں گا، خواہ اس کیلئے میری زندگی ہی کیوں نہ چلی جائے‘

پاکستان کے سابق وزیراعظم اور پیپلزپارٹی کے بانی شہید ذوالفقار علی بھٹو کو ملک، جمہوریت اور عوام کے لیے ان کی نمایاں خدمات کے اعتراف میں نشان پاکستان سے نوازا گیا، جو ان کی صاحبزادی صنم بھٹو نے وصول کیا۔ پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بعداز شہادت ’’نشان پاکستان‘‘ کا اعتزاز ملنے کو تاریخ کا اہم سنگ میل قرار دیا۔ 

بلاول بھٹو نے اپنے پیغام میں کہا کہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم اور آئین پاکستان کے خالق کو اعلیٰ ترین سول اعزاز ملنا بھٹو ازم کے نظریے کی ایک اور فتح ہے، یہ اعزاز شہید بھٹو کی ملک کے لیے گراں قدر خدمات کا باضابطہ اعتراف ہے۔ فخر ایشیا ذوالفقار علی بھٹو کی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی، لیکن وہ آج بھی گڑھی خدابخش سے راج کر رہے ہیں۔

شفاف ٹرائل کے بغیر معصوم شخص کو پھانسی چڑھایا گیا سپریم کورٹ کی بھٹو کی پھانسی کے متعلق ریفرنس پر رائے

’امن کی تلاش کی کوشش کروں گا، خواہ اس کیلئے میری زندگی ہی کیوں نہ چلی جائے‘

5 جولائی 2024 کوسپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے متعلق صدارتی ریفرنس پر تفصیلی رائے جاری کی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 48صفحات پر مشتمل رائے تحریر کی، سپریم کورٹ نے 12 نومبر 2012 کو صدارتی ریفرنس پر آخری سماعت کی تھی، یہ صدارتی ریفرنس 11سال تک سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا، ریفرنس کی سماعت کرنے والے تمام 9جج اس دوران ریٹائر ہوگئے، تاہم 12 دسمبر 2023 کو صدارتی ریفرنس سماعت کیلئے دوبارہ مقرر کیا گیا، 11 برس کے دوران متعدد صدارتی ریفرنس آئے جن پر سماعت کی گئی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس پر تفصیلی رائے میں لکھا کہ شفاف ٹرائل کے بغیر معصوم شخص کو پھانسی چڑھایا گیا، ملک اور اس کی عدالتیں اس وقت مارشل لاء کی قیدی تھیں، آمرکی وفاداری کا حلف اٹھانے والے جج کی عدالتیں پھر عوام کی عدالتیں نہیں رہتیں۔ تفصیلی رائے میں کہا گیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کا براہ راست فائدہ جنرل ضیاء الحق کو ہوا، اگر بھٹو کو رہا کر دیا جاتا تو وہ ضیاء الحق کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ چلاسکتے تھے۔

جنرل ضیاءالحق کی بقا اسی میں تھی کہ بھٹو کو سزا سنا دی جائے۔تفصیلی رائے میں کہا گیا کہ 5 جولائی 1977 کو آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے جمہوری حکومت ختم کر کے مارشل لاء لگا دیا، احمد رضا خان کے قتل کی تحقیقات 3 مئی 1976 کو بند کر دی گئی تھی، احمدرضاخان کے قتل کی تحقیقات ڈائریکٹر ایف آئی اے کے زبانی احکامات پر دوبارہ کھول دی گئی، 18 ستمبر 1977 کو حتمی چالان میں مسعود محمود، میاں محمدعباس کو سلطانی گواہ ظاہر کیا گیا۔

تفصیلی رائے کے مطابق فرد جرم 11 اکتوبر 1977 کو عائدکی گئی، ملزمان نے فرد جرم سے انکار کیا، 11 اکتوبر 1977 سے 25 فروری 1978 تک ہائیکورٹ نے بطور ٹرائل کورٹ مقدمہ سنا، استغاثہ کے 41 گواہوں اور صفائی کے صرف 4 گواہوں کی شہادتیں قلم بندکی گئیں،2 مارچ 1978 کو محفوظ کیا گیا فیصلہ 18 مارچ 1978 کو سنایا گیا، بھٹو کو اعانت جرم، قتل، اقدام قتل، قتل کی سازش کے تحت سزائے موت سمیت 12 سال کی سزا سنائی گئی۔

تفصیلی تحریری رائے میں کہا گیا کہ بھٹو نے سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی، سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ نے 3،4کی اکثریت سے بھٹو کی اپیل مسترد کر دی اور پھر بھٹو کی نظر ثانی اپیل 7 رکنی بینچ نے متفقہ طور پر مستردکی۔ تحریری رائے میں کہا گیا کہ بھٹو کے ڈیتھ وارنٹ پر جسٹس مشتاق حسین نے دستخط کیے جو چیف جسٹس لاہور بن چکے تھے، بھٹو کی پھانسی کی سزا پر عملدر آمد کیلئے پہلے 2 اپریل 1979 کی تاریخ رکھی گئی، پھر سزائے موت پر عملدر آمد کی تاریخ تبدیل کر کے 4 اپریل 1979 کی گئی۔

ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کے متعلق صدارتی ریفرنس کی تحریری رائے میں کہا گیا کہ عدالت یہ واضح کرنا چاہتی ہے کہ عدالت نے نہ اپیل نہ ہی نظرثانی سنی ہے، آئین اور قانون میں ذوالفقارعلی بھٹو کی سزا کالعدم قرار دینے کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے، عدالت نے صدارتی ریفرنس پر سماعت آرٹیکل 186 کے تحت مشاورتی اختیار کے تحت کی، مشاورتی اختیار سماعت کے تحت سزا کو کالعدم قرار نہیں دیا جاسکتا۔

تحریری رائے میں یہ بھی کہا گیا کہ ہائی کورٹ کو قتل کے مقدمے کا ٹرائل کرنے کا اختیار نہیں تھا، پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں کہ ہائی کورٹ نے قتل کا ٹرائل کیا ہو، ہائی کورٹ نےاس ٹرائل سے پہلے نہ اس ٹرائل کے بعد کوئی ایسا ٹرائل کیا۔کی حثیت اختیار کر لی۔

کون جانتا تھا کہ نواب محمد کا قتل پاکستان کی سیاسی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے بد ل دے گا۔

آج بھٹو کو دنیا سے رخصت ہوئے 46 برس ہو گئے لیکن وقت نے ثابت کر دیا کہ زندہ بھٹو سے شہید بھٹو زیادہ طاقت ور ہو گیا ہے۔

ذیل میں بھٹو کی وزیرِ خارجہ کی حثیت سے مختصراً اور بیگم نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو سے آخری ملاقات کے بارے میں تفصیلات ملاحظہ کریں۔

وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے معرکہ خیز زندگی

ذوالفقار علی بھٹو، تیسری دنیا کا ایک ایسا لیڈر جس نے ناصرف پاکستان کے عوام کے دلوں میں گھر کیا بلکہ وزیر خارجہ کی حیثیت سے معرکہ خیز زندگی گزاری، خارجہ پالیسی میں تصور رکو عملی طور پر جگہ دی اور یہ بتایاکہ دنیا مسلسل حرکت اور تیزی سے بروقت، صحیح فیصلے کرنے کی جگہ ہے اور پاکستان جیسے ملک کو اپنی پالیسیوں کو دنیا کی رفتار کار سے ہم آہنگ رکھنا چاہیے۔ وہ جمال عبدالناصر، سوئیکارنو اور چواین لائی جیسے عالمی سربراہوں کا تذکرہ اس لیے محبت اور احترام سے کرتے تھے کہ یہ تنیوں تیسری دنیا میں سامراجی دباؤ کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوگئے تھے۔ 

یہ حقیقت ہے کہ، ذوالفقار علی بھٹو نے خاص طور پرتیسری دنیا کے قائد کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ جب انہوں نے وزارت خارجہ کا قملدان سنبھالا تو پاکستان خارجہ پالیسی کے لحاظ سے امریکہ کی طفیلی ریاست بن کر رہ گیا تھا۔ انہوں نے اس جمود کو توڑا اور چین کے ساتھ پاکستان کے ایسے تعلقات کی بنیاد رکھی جن کے کچھ اثرات 1965ء کی جنگ میں چین کی طرف سے بھارت کو الٹی میٹم دیئے جانے کے بعد پاکستان کی حفاظت اور دفاع کا باعث بنے۔ 

’امن کی تلاش کی کوشش کروں گا، خواہ اس کیلئے میری زندگی ہی کیوں نہ چلی جائے‘

اگست1996ء میں انہوں نے عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ پی آئی اے کے لئے ائر سروس کے ایک معاہدے پر دستخط کئے اور یوں عوامی جمہوریہ چین میں پہلی غیر ملکی ائر سروس کے اجرا کو عملی طور پر ممکن کر دکھایا۔ جب انہیں تیل اور قدرتی وسائل کی وزارت سونپی گئی تو انہوں نے روس کے ساتھ ایک ایسے سمجھوتے کو ممکن بنادیا جس سے پاکستان کو نہ صرف وسیع البنیاد فوائد حاصل کرنے کا آغاز ہوا بلکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک اہم اور مثبت تبدیلی کے آثار بھی نمایاں ہوئے۔

امریکہ نواز وزیر خزانہ مسٹرشعیب کی سخت مخالفت کے باوجود انہوں نے روس کے ساتھ تیل دریافت کے جس سمجھوتے کو پاکستان کی شرائط پر آخری شکل دینے میں کامیابی حاسل کی اس نے بھٹو کو دنیا بھر میں ایک آزاد قوم پرست وزیرخارجہ کی حیثیت سے شہرت دی۔

1964ء میں پاکستان کا جکارتہ میں ایفروایشین کانفرنس، میں شریک ہونا اوربن بیلا کا تختہ الٹے جانے کے باوجود اجلاس کو ممکن کر دکھانا صرف جناب بھٹو کا ہی مرہون منت تھا اور یہ پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا۔ الجیربا، جہاں اس کانفرنس کا انعقاد طے تھا، بغاوت کے نتیجے میں گولیوں اور آگ کے شعلوں کی زد میں تھا ،اس عالم میں  بھٹو، ایوب خان کے منع کرنے کے باوجود وہاں پہنچے اور کانفرنس کو سبوتاژ ہو نے سے بچا کر تیسری دنیا کی آنکھ کا تارہ بن گئے۔ اس کانفرنس کے حوالے سے بیرونی ْ اخبارات نے لکھا :۔

’’تمام ملکوں میں پاکستان نے ہی مرکزی کردار ادا کیا اور مسٹر بھٹو مصالحت کے معمار بن کرابھرے‘‘۔

یہ حقیقت ہے کہ وزیر خارجہ بننے کے بعد صرف اڑھائی برس کی مدت میں وہ تیسرے دنیا کی خارجہ پالیسی کے اُفق پر ہر طرح سے چھاگئے تھے۔

ذوالفقار علی بھٹونے ملک و قوم کے ان نازک لمحات میں جرأت مندانہ اور وقت کی نزاکت سے ہم آہنگ فیصلے کئے جب ہر طرف شکست اور تباہی کے آثار نمایاں تھے، انہوں نے اعلیٰ قائدانہ صلاحتیوں کامظاہرہ کیا اور ایسی فضا پیدا کی کہ قوم کے ٹوٹے پھوٹے ڈھانچے میں جان پیدا ہونے لگی عوام اور کارکنوں میں اعتماد بحال کیا۔ انہیں پکار پکار کر کہا:

’’آگے بڑھو۔ ہمت کرو۔ ہم اس صورت حال کا سامنا کرکے اسے اپنے حق میں تبدیل کردیں گے‘‘

انہوں نے ناقابلِ شکست ارادوں کے ساتھ رات دن کام کیا۔ ملکی تعمیر کے لئے متعدد منصوبے بنائے۔ انقلابی اصلاحات کیں۔جب 27؍جون 1972ء کو قائد عوام نے بھارت میں اسیر 90ہزار پاکستانی فوجیوں کی رہائی اور بھارتی قبضے میں موجود چھ ہزار مربع میل علاقے کی بازیابی کے لئے شملہ کا رخ کیا تو اس وقت پاکستان اور بھارت کی پوزیشن عجیب طرح کی تھی۔ بھارتی قیادت فتح کے نشے میں مدہوش تھی۔ اس لمحے قائد عوام نے کہا تھا:

’’امن کی تلاش کی کوشش کروں گا خواہ اس کے لئے میری زندگی ہی کیوں نہ چلی جائے‘‘۔

انہوں نے دانشورانہ سیاسی مہارت کے ساتھ شملہ معاہدے پر دستخط ہونے تک کا ایک ایک لمحہ گزارا۔ شملہ معاہدے سے پہلے مری میں ابتدائی بات چیت کے دوران مسٹر ڈی پی دھرنے پاکستان کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کی نیت سے کشمیر، جنگ نہ کرنے، تجارت، فوجی برتری اور مقبوضہ علاقوں کے معاملات کو ایک ساتھ اپنی شرائط پر طے کرانے کے ارادے سے علامتی انداز میں جناب بھٹو سے کہا تھا:

’’بھارتی ایک ہی بار معاہدے۔ یعنی پھولوں کا گلدستہ چاہتے ہیں‘‘۔

مارچ 1972ء کے ان تاریخی مذاکرات میں بھٹو نے ڈی پی دھر کے اس جملے کا جواب اسی انداز میں دیتے ہوئے کہا تھا:

’’نہیں ۔ نہیں ۔ ایک وقت میں ایک پھول‘‘

شملہ معاہدہ اپنے متن، الفاظ کی ہنر کاری اور پاکستانی مفادات کا اس قدر آئینہ دار تھا کہ بھارتی قیادت کو دیر تک اپنے میڈیا کا سامنا کرنا مشکل بنا رہا۔ وہ اپنے عوام کے مزاج سے کسی بھی دوسرے سیاسی راہنما سے کہیں زیادہ آشنا تھے۔ وہ عوام سے اپنی بات منوانے اور محبت سے اپنے خیالات کا علمبردار بنانے کے فن سے آگاہ تھے۔

عوام ان سے پیار کرتے تھے تو وہ بھی ان کی فلاح و بہبود کے لئے اندرون ملک اور بیرون ملک طاقتوں سے دل و جان سے لڑے اور اس طرح لڑے کہ جان سے گزر گئے۔ جس جرأت کے ساتھ زندگی گزاری اس جرأت کے ساتھ موت کو قبول کیا۔ اٹھارہ مہینے کی قید کے دوران کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آیا جب ان کے قدم ڈولے۔ بھٹو کے جسم کو ختم کر دینا ممکن تھا لیکن جسم کی قید سے آزاد بھٹو کو ختم کرنا ممکن نہیں ہو سکا۔

’ ’’بیٹی پلیز چلی جاؤ‘‘ میں تم سے کیسے مل سکتا ہوں جب عوام کو مجھ سے ملنے کی اجازت نہیں ہے

یکم اپریل کو علی الصبح ایس ایچ او کلفٹن پولیس کے ہمراہ 70 کلفٹن میں داخل ہوئے۔ 70 کلفٹن جہاں عظیم پالیسی ساز فیصلے کیے گئے۔ جہاں آمریت کے خلاف جدوجہد شروع ہوئی تھی اس وقت وہاں بے نظیر بھٹو تھیں، انہیں کو ایک کار میں بیٹھایا گیا، جس میں ایک جانب لیڈی انسپکٹر، دوسری جانب ایس پی ناظم آباد بیٹھے تھے۔

کار ایک پولیس والا چلا رہا تھا۔ ایک پولیس جیپ اس کار کے آگے تھی، اس کے پیچھے ایک انٹیلی جنس کار تھی اور دوسری انٹیلی جنس کار بے نظیر بھٹو کے پیچھے تھی۔ یہ قافلہ سیدھا ایئرپورٹ پہنچا جہاں ایک ڈی سی او اکھڑا تھا۔ جہاز کے چاروں طرف پولیس تھی۔ ایس پی ناظم آباد کے پاس بورڈنگ پاس تھا وہ سب لوگ ایس پی کی نگرانی میں جہاز کی سیڑھیوں پر چڑھ گئے، کوئی شخص بے نظیر بھٹو سے بات چیت کرسکتا تھا۔

’امن کی تلاش کی کوشش کروں گا، خواہ اس کیلئے میری زندگی ہی کیوں نہ چلی جائے‘

جب جہاز لاہور کی حدود میں اترا۔ لاہور جہاں 1966ء میں ایک نوجوان وزیرخارجہ کا نام گونج رہا تھا، جہاں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد ہوا تھا، جہاں ہنری کسنجر نے بھٹو سے کہا تھا کہ’’ میں تمہاری بھیانک مثال قائم کروں گا۔‘‘

بے نظیر بھٹو طیارے سے پہلے اتریں۔ پنچے ایک کار ان کی منتظر تھی۔ زبردست حفاظتی پہرے میں فوجی علاقے سے گزرتے ہوئے ان کی کار کوٹ لکھپت جیل کی طرف روانہ ہوئی۔ ایئرپورٹ کے باہر برطانوی امریکی ٹیلی ویژن کے نمائندے، پاکستان اور غیر ملکی اخباری نمائندے بھی انتظار میں تھے لیکن بے سود۔ بے نظیر بھٹو کی کار کوٹ لکھپت جیل پہنچی تو جیل کا آہنی پھاٹک کھلا اور کار اندر داخل ہوگئی۔ 

بے نظیر بھٹو کار سے اتر یں اور پیدل چلنا شروع کیا۔ پھانسی گھاٹ تک کافاصلہ کافی تھا لوہے کا ایک اور گیٹ آیا،دو چار قدم آگے بڑھیں، وہاں ایک اور لوہے کا گیٹ تھا، اس کے پیچھے کافی اندھیرا تھا۔ ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ انہیں یہاں کیوں لایا گیا ہے وہ ایک پولیس والے سے پوچھنا چاہتی تھیں کہ اچانک انہیں ایک آواز سنائی دی جو ان کے والد کی آواز تھی وہ کہہ رہے تھے کہ:

’’بیٹی پلیز چلی جاؤ‘‘ میں تم سے کیسے مل سکتا ہوں جب عوام کو مجھ سے ملنے کی اجازت نہیں ہے۔ میں تم سے کیسے مل سکتا ہوں۔ جب وہ مجھ سے نہیں مل سکتے تو تم بھی مجھ سے ملاقات نہ کرو۔‘‘

بے نظیر بھٹونے اپنے والد سے کہا ، میں آپ سے ملوں گی۔ کیوں کہ عوام مجھ سے آپ کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کیسے ہیں۔ وہ سکون محسوس کرتے ہیں جب میں یہ بتاتی ہوں کہ میں آپ سے ملی ہوں۔ میں جب ان سے بات کرتی ہوں تو انہیں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ میرے ذریعے آپ سے ملے ہیں۔ بے نظیر بھٹو آگے جاتی ہیں اور کوٹھری کے دروازے کی سلاخوں کو پکڑ لیتی ہیں اندھیرے میں ان کی آنکھیں دیکھنے کے قابل ہوتی ہیں۔ تو وہ اپنے باپ کو دیکھتی ہیں ان کے چہرہ مچھروں کے کاٹنے سے سرخ ہو رہا تھا وہی چہرہ جس نے حجر اسود کو چوما تھا۔

’امن کی تلاش کی کوشش کروں گا، خواہ اس کیلئے میری زندگی ہی کیوں نہ چلی جائے‘

چیئرمین نے اپنا ہاتھ باہر نکالا اور بے نظیر یہ دیکھ کر خوف زدہ ہوگئی کہ ان کا ہاتھ مچھروں کے کاٹنے سے بھرا ہوا ہے۔ کوٹھری 8x11 فٹ تھی۔ تنگ و تاریک اور بدبودار۔ یہ ملک کے پہلے منتخب صدر اور وزیراعظم کی کوٹھری تھی۔ ان کا چہرہ پرسکون تھا ، آنکھوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ بالکل مطمئن ہیں۔ ان کی ہمت، اعتماد اور سکون چہرے اور آواز سے ظاہر ہوتا تھا۔ 

انہوں نے بے نظیر کے سرپر ہاتھ پھیرا اور کہا پاکستان ایک کثیر القومی ملک ہے انہوں نے عملی سیاست میں تبدیلیوں کے بارے میں بے نظیر بھٹو کو بتایا اور مختصراً عدالت کی کارروائی سے بھی آگاہ کیا۔ چیئرمین نے کہا کہ وہ مولوی مشتاق کی بنچ سے کسی انصاف کی توقع نہیں رکھتے لہٰذا انہوں نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا تھا اور ان کو دی جانے والی سزا سے یہ ثابت ہوا کہ ان کا اندازہ صحیح تھا۔

اب ملاقات کا وقت ختم ہو رہا تھا۔ چیئرمین نے بے نظیر بھٹو کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ ’’میری بیٹی میرے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے وعدہ کرو کہ تم میرے مشن کو جاری رکھو گی۔ بے نظیر بھٹو نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ ان کی یہ خواہش ضرور پوری کریں گی۔ وہ جیل سے باہر آگئیں۔ انہوں نے پلٹ کر اس اندھیری کوٹھری کی طرف نہیں دیکھا، جہاں قوم کا قائد قید تنہائی میں موجود تھا۔

(محمود شام کی تحریر کردہ کتاب ’’بے نظیر بھٹو سے اقتباس)

بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی آخری ملاقات 

3اپریل 1979ء کو جب بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو آخری ملاقات کے لئے بلایا گیا توبے نظیر نے اپنی ایک سہیلی کو ایک خط میں لکھا، ’’ مجھے بتایا گیا ہے کہ پاپا کے ساتھ میری یہ آخری ملاقات ہے ۔ پوری کوشش کروں گی کہ بہادر بنوں اور روؤں نہیں “ ۔ مقررہ دن انہیں ایک شیورلیٹ گاڑی میں راولپنڈی پہنچایا گیا۔ 

معمول کے مطابق ان کی تلاشی لی گئی اور خاردار تار کی بنی ہوئی ایک باڑ میں سے گزار کر جیل کےاُس حصے میں پہنچایا گیا، جہاں بھٹو قید تھے۔ اس ملاقات میں دونوں ماں بیٹی نے بھٹو سے پانچ فٹ دور بیٹھ کر بات چیت کی۔ اس موقع پر ایک ہمدرد افسر نے بھٹو کو بتا دیا تھا کہ بیوی اور بیٹی سے بات کرنے کا یہ آخری موقع ہے۔

اس ملاقات میں کوئی آنسو بہا نہ کوئی سسکی سنائی دی ۔ دونوں ماں بیٹیاں پارٹی اور پاکستان کے مستقبل کے بارے میں باتیں کرتی رہیں اور قائد بھٹو ان کو حوصلے دیتے رہے۔ بھٹو نے اپنی کتاب، سلیپر، ڈریسنگ گاؤن اور دیگر ذاتی چیزیں ان کے حوالے کیں۔ آخری ملاقات ختم ہوئی، بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر کے چہروں پر غم اور اداسی چھا گئی۔ دونوں ماں بیٹیاں بھٹو سے جدا ہو کر واپس آرہی تھیں کہ دو آنسو بے نظیر کی آنکھوں سے ڈھلک گئے۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو کے لیے ’’نشان پاکستان‘‘ بھٹو ازم نظریے کی ایک اور فتح ہے، بلاول بھٹو

’امن کی تلاش کی کوشش کروں گا، خواہ اس کیلئے میری زندگی ہی کیوں نہ چلی جائے‘

پاکستان کے سابق وزیراعظم اور پیپلزپارٹی کے بانی شہید ذوالفقار علی بھٹو کو ملک، جمہوریت اور عوام کے لیے ان کی نمایاں خدمات کے اعتراف میں نشان پاکستان سے نوازا گیا، جو ان کی صاحبزادی صنم بھٹو نے وصول کیا۔ پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بعداز شہادت ’’نشان پاکستان‘‘ کا اعتزاز ملنے کو تاریخ کا اہم سنگ میل قرار دیا۔ 

بلاول بھٹو نے اپنے پیغام میں کہا کہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم اور آئین پاکستان کے خالق کو اعلیٰ ترین سول اعزاز ملنا بھٹو ازم کے نظریے کی ایک اور فتح ہے، یہ اعزاز شہید بھٹو کی ملک کے لیے گراں قدر خدمات کا باضابطہ اعتراف ہے۔ فخر ایشیا ذوالفقار علی بھٹو کی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی، لیکن وہ آج بھی گڑھی خدابخش سے راج کر رہے ہیں۔

شفاف ٹرائل کے بغیر معصوم شخص کو پھانسی چڑھایا گیا سپریم کورٹ کی بھٹو کی پھانسی کے متعلق ریفرنس پر رائے

’امن کی تلاش کی کوشش کروں گا، خواہ اس کیلئے میری زندگی ہی کیوں نہ چلی جائے‘

5 جولائی 2024 کوسپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے متعلق صدارتی ریفرنس پر تفصیلی رائے جاری کی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 48صفحات پر مشتمل رائے تحریر کی، سپریم کورٹ نے 12 نومبر 2012 کو صدارتی ریفرنس پر آخری سماعت کی تھی، یہ صدارتی ریفرنس 11سال تک سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا، ریفرنس کی سماعت کرنے والے تمام 9جج اس دوران ریٹائر ہوگئے، تاہم 12 دسمبر 2023 کو صدارتی ریفرنس سماعت کیلئے دوبارہ مقرر کیا گیا، 11 برس کے دوران متعدد صدارتی ریفرنس آئے جن پر سماعت کی گئی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس پر تفصیلی رائے میں لکھا کہ شفاف ٹرائل کے بغیر معصوم شخص کو پھانسی چڑھایا گیا، ملک اور اس کی عدالتیں اس وقت مارشل لاء کی قیدی تھیں، آمرکی وفاداری کا حلف اٹھانے والے جج کی عدالتیں پھر عوام کی عدالتیں نہیں رہتیں۔ تفصیلی رائے میں کہا گیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کا براہ راست فائدہ جنرل ضیاء الحق کو ہوا، اگر بھٹو کو رہا کر دیا جاتا تو وہ ضیاء الحق کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ چلاسکتے تھے۔

جنرل ضیاءالحق کی بقا اسی میں تھی کہ بھٹو کو سزا سنا دی جائے۔تفصیلی رائے میں کہا گیا کہ 5 جولائی 1977 کو آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے جمہوری حکومت ختم کر کے مارشل لاء لگا دیا، احمد رضا خان کے قتل کی تحقیقات 3 مئی 1976 کو بند کر دی گئی تھی، احمدرضاخان کے قتل کی تحقیقات ڈائریکٹر ایف آئی اے کے زبانی احکامات پر دوبارہ کھول دی گئی، 18 ستمبر 1977 کو حتمی چالان میں مسعود محمود، میاں محمدعباس کو سلطانی گواہ ظاہر کیا گیا۔

تفصیلی رائے کے مطابق فرد جرم 11 اکتوبر 1977 کو عائدکی گئی، ملزمان نے فرد جرم سے انکار کیا، 11 اکتوبر 1977 سے 25 فروری 1978 تک ہائیکورٹ نے بطور ٹرائل کورٹ مقدمہ سنا، استغاثہ کے 41 گواہوں اور صفائی کے صرف 4 گواہوں کی شہادتیں قلم بندکی گئیں،2 مارچ 1978 کو محفوظ کیا گیا فیصلہ 18 مارچ 1978 کو سنایا گیا، بھٹو کو اعانت جرم، قتل، اقدام قتل، قتل کی سازش کے تحت سزائے موت سمیت 12 سال کی سزا سنائی گئی۔

تفصیلی تحریری رائے میں کہا گیا کہ بھٹو نے سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی، سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ نے 3،4کی اکثریت سے بھٹو کی اپیل مسترد کر دی اور پھر بھٹو کی نظر ثانی اپیل 7 رکنی بینچ نے متفقہ طور پر مستردکی۔ تحریری رائے میں کہا گیا کہ بھٹو کے ڈیتھ وارنٹ پر جسٹس مشتاق حسین نے دستخط کیے جو چیف جسٹس لاہور بن چکے تھے، بھٹو کی پھانسی کی سزا پر عملدر آمد کیلئے پہلے 2 اپریل 1979 کی تاریخ رکھی گئی، پھر سزائے موت پر عملدر آمد کی تاریخ تبدیل کر کے 4 اپریل 1979 کی گئی۔

ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کے متعلق صدارتی ریفرنس کی تحریری رائے میں کہا گیا کہ عدالت یہ واضح کرنا چاہتی ہے کہ عدالت نے نہ اپیل نہ ہی نظرثانی سنی ہے، آئین اور قانون میں ذوالفقارعلی بھٹو کی سزا کالعدم قرار دینے کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے، عدالت نے صدارتی ریفرنس پر سماعت آرٹیکل 186 کے تحت مشاورتی اختیار کے تحت کی، مشاورتی اختیار سماعت کے تحت سزا کو کالعدم قرار نہیں دیا جاسکتا۔

تحریری رائے میں یہ بھی کہا گیا کہ ہائی کورٹ کو قتل کے مقدمے کا ٹرائل کرنے کا اختیار نہیں تھا، پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں کہ ہائی کورٹ نے قتل کا ٹرائل کیا ہو، ہائی کورٹ نےاس ٹرائل سے پہلے نہ اس ٹرائل کے بعد کوئی ایسا ٹرائل کیا۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو - تاریخ کے چند اوراق

 شہید ذوالفقار علی بھٹو - تاریخ کے چند اوراق

اظہر عباس

"ہم تمھیں ایک دہشت ناک مثال بنا دیں گے"
ہنری کسنجر

Then we will make a horrible example of you!" 
(Henry Kissinger-1976)

پاکستان میں جاگیرداروں کا مخصوص سیاسی کلچر رہا ہے۔ ستر کے عشرے اور اس سے قبل بھی اکثر سیاست دان جاگیردار تھے۔ خود کو بڑا سمجھنا، حکومت یا حکومتی اہلکار کے سامنے جھک جانا۔ اپنے مخالفین اور ماتحتوں سے ظالمانہ طریقے سے نمٹنا ان کا مخصوص طرزِ حیات تھا۔ لہٰذا سیاست اور اقتدار میں بھی دھونس اور نوکر شاہی یا حکومت کی پشت پناہی ضروری سمجھی جاتی تھی۔ یہی لوگ اسمبلیوں یہاں تک کہ سیاسی جماعتوں پر حاوی ہوتے تھے۔ باقی لوگ زمیندار تو نہ تھے لیکن ان  کے سیاسی کلچر پر ہی چلتے تھے۔ سیاسی جاگیردار کلچر کیا تھا؟ بھٹو نے قومی اسمبلی میں ایک تقریر میں اس کو بیان کیا تھا۔

’جب جاگیردار ایک دوسرے سے لڑتے ہیں تو عوام پیچھے رہ جاتے ہیں۔ کوئی ترقی نہیں ہوتی، کوئی کارخانہ نہیں لگتا، کوئی سڑک تعمیر نہیں ہوتی۔ بدترین اندھیرا اور غربت چھائی رہتی ہے۔ صرف گنتی کے لوگ ترقی کرتے ہیں یا خوش حال ہوتے ہیں۔ آپس کی لڑائیاں، عام آدمی کا استحصال، معاشی اور سماجی ترقی سے بے گانگی ہے‘

پاکستان کے سابق وزیر اعظم لاڑکانہ سندھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سر شاہ نواز بھٹو مشیر اعلیٰ حکومت بمبئی اور جوناگڑھ کی ریاست میں دیوان تھے۔ پاکستان میں آپ کو قائدِعوام‎ یعنی عوام کا رہبر اور بابائے آئینِ پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ آپ پاکستان کی تاریخ کے مقبول ترین وزیر اعظم تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے 1950 میں برکلے یونیورسٹی کیلیفورنیا سے سیاسیات میں گریجویشن کی۔ 1952ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے اصول قانون میں ماسٹر کی ڈگری لی۔ اسی سال مڈل ٹمپل لندن سے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔

وہ پہلے ایشیائی تھے جنھیں انگلستان کی ایک یونیورسٹی ’’ساؤ تھمپئین‘‘ میں بین الاقوامی قانون کا استاد مقرر کیا گیا۔ کچھ عرصہ مسلم لا کالج کراچی میں دستوری قانون کے لیکچرر رہے۔ 1953ء میں سندھ ہائی کورٹ میں وکالت شروع کی۔

بھٹو جمہوری حکومت میں صدر پاکستان سکندر مرزا کے وزیر اعظم فیروز خان نون کی کابینہ میں وزیر تجارت تھے۔

پاکستان کے زلفی بھٹو سے (شائع شدہ 1993) بذریعہ پروفیسر اسٹینلے وولپرٹ لکھتے ہیں:

"شاہ نواز [بھٹو] نے جناح سے پہلی بار 1928 میں لاڑکانہ میں ملاقات کی، جس سال ذوالفقار علی بھٹو پیدا ہوئے تھے۔ 

بمبئی کے اس وقت کے ہونہار بیرسٹر، (محمد علی جناح) جو خود سندھ میں پیدا ہوئے اور کراچی میں پرورش پائی، کو سندھ کی محمڈن ایسوسی ایشن نے مدعو کیا تھا، جس کی صدارت سر شاہ نواز بھٹو نے کی۔ 

سندھ کے کئی مسلم وڈیروں کے درمیان قانونی تنازعہ طے کرنے کے لیے محمد علی جناح لاڑکانہ میں بھٹو کے عظیم الشان گھر المرتضیٰ میں شاہ نواز کے ساتھ ٹھہرے تھے۔

"زلفی نے اپنا پہلا خط 26 اپریل 1945 کو جناح کو لکھا تھا، جب وہ پِلو کے ساتھ مسوری ہوٹل میں چھٹیاں گزار رہے تھے۔ 17 سال کی عمر میں اس نے لکھا:

"جناب آپ نے ہمیں ایک پلیٹ فارم اور ایک جھنڈے کے نیچے لایا ہے اور ہر مسلمان کا نعرہ ہونا چاہیے کہ پاکستان آگے بڑھنا ہے، ہمارا مقدر پاکستان ہے، ہمارا مقصد پاکستان ہے، ہمیں کوئی نہیں روک سکتا، ہم خود ایک قوم ہیں۔ ہندوستان ایک برصغیر ہے۔ آپ نے ہمیں متاثر کیا ہے اور ہمیں آپ پر فخر ہے۔ میں ابھی بھی اسکول میں ہونے کی وجہ سے اپنی مقدس سرزمین کے قیام میں مدد کرنے سے قاصر ہوں۔ لیکن وہ وقت آئے گا جب میں پاکستان کے لیے اپنی جان بھی قربان کر دوں گا۔"

ذوالفقار علی بھٹو کے ہم جماعت پیلو مودی کی لکھی ہوئی کتاب سے اقتباس:

("زلفی مائی فرینڈ"، شائع 1973)

"زلفی نے عوامی زندگی میں اس آسان طریقے سے قدم رکھا جس طرح اسکندر مرزا بھٹو خاندان کے پرانے دوست تھے، ان کے چچا حکومت بمبئی میں انجینئر تھے جب زلفی کے والد وزیر تھے، وہ بہت گہرے دوست تھے۔

ایک موقع پر زلفی نے صدر اسکندر مرزا کے ساتھ ایک طویل ملاقات کی اور بظاہر صدر اس بحث سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے زلفی کو پاکستان کی نمائندگی کے لیے بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ 
 
انہوں نے بھٹو کو یقین دلایا کہ وہ ستمبر 1956 میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں انکی حاضری یقینی بنائیں گے۔ تھوڑی دیر بعد حسین شہید سہروردی وزیر اعظم بن گئے۔ اس سے قبل زلفی کا مجیب الرحمان سے 1955 میں سہروردی کی رہائش گاہ پر جھگڑا ہوا تھا۔ تاہم، سہروردی نے 1956 میں جنرل اسمبلی میں پاکستان کے وفد سے بھٹو کا نام نکالنے کی وجہ یہ نہیں تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ سہروردی بھٹو کی عوامی لیگ میں شمولیت کی پیشکشوں سے بار بار انکار کرنے پر ناراض تھے۔"

Tuesday, March 25, 2025

بلوچستان کا کھیل اور اسکے کھلاڑی

 بلوچستان کا کھیل اور اسکے کھلاڑی

اظہر عباس


بلوچستان میں کھیلا جانے والا کھیل نیا نہیں۔ یہ خونی کھیل دہائیوں سے جاری ہے۔ اس پر مختلف عالمی صحافی و تجزیہ کار اپنے تجزئیے دیتے رہے ہیں لیکن کہیں آپ کو اس کھیل کی تاریخ اور اس کے عالمی کھلاڑیوں پر جامع تجزیہ نہیں ملے گا۔ مجھے یہ رپورٹ 2006 میں ملی۔ اس وقت بھی بلوچستان آج کی طرح جل رہا تھا۔


یہ رپورٹ، دو حصوں میں، مارچ 2005 میں شائع ہوئی تھی۔ یہ BLA کی ابتدا اور بحالی کے بارے میں پہلی اور اب تک کی واحد مستند رپورٹ تھی۔ اس رپورٹ میں کچھ پیشین گوئیاں کی گئی تھیں جو پہلے ہی پوری ہو چکی ہیں۔ یہ ایک ایسی رپورٹ تھی جس میں گریٹر سینٹرل ایشیا کے خطے میں کھیلے جانے والے جان لیوا کھیل کو بولڈ اسٹروکس میں رنگ دیا گیا تھا۔ 


اس رپورٹ کی تیاری میں طارق سعیدی اشک آباد (ترکمانستان)، ماسکو سے سرگی پیتاکوف، علی نسیم زادہ زاہدان، قاسم جان قندھار اور ایس ایم کاسی کوئٹہ سے شامل تھے


جبکہ نئی دہلی سے روپا کیول اور واشنگٹن سے مارک ڈیوڈسن کی اضافی رپورٹنگ اس میں شامل تھی۔ 


دھوکہ دہی اور خیانت، جیو اور مرنے دو۔ حتمی زیرو سم کا کھیل، خونی تاریخ کا اعادہ - اسے آپ جو بھی کہہ سکتے ہیں، پاکستانی صوبے بلوچستان میں کچھ ایسا ہو رہا ہے جو کسی بھی روایتی پیمانے پر فہم کے منافی ہے۔


چار نامہ نگاروں اور درجنوں ساتھی جنہوں نے گزشتہ سات ہفتوں کے دوران اجتماعی طور پر 5000 کلومیٹر سے زائد لاگ ان کیے ایک ہی سوال کے تعاقب میں "بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟" پوری تصویر کے صرف چھوٹے حصوں کو ننگا کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔


تاہم، اگر حصوں میں پوری طرح سے کوئی متناسب مشابہت ہے، تو یہ ایک خوفناک اور دماغ کو ہلا دینے والی تصویر ہے۔


ہر کہانی کہیں سے شروع ہونی چاہیے۔ یہ کہانی آسانی سے 7 جنوری 2005 کی رات کو شروع ہونی چاہیے تھی جب سوئی میں گیس کی تنصیبات پر راکٹ گرے تھے اور پاکستان کا بیشتر حصہ تقریباً ایک ہفتے کے لیے رک گیا تھا۔ یا، ہمیں 2 جنوری 2005 کی رات کو نقطہ آغاز کے طور پر لینا چاہیے تھا جب سوئی میں ایک بدقسمت خاتون ڈاکٹر کے ساتھ مبینہ طور پر اجتماعی زیادتی کی گئی۔ تاہم، اس کہانی کو پیک کرنے کے لیے موزوں نقطہ جنوری 2002 ہے اور ہم ایک منٹ میں اس پر واپس جائیں گے۔


درحقیقت بلوچستان میں شورش کے آغاز کے لیے عناصر پہلے ہی سے تیار ہو چکے تھے اور منصوبہ ساز حالات کو حرکت میں لانے کے لیے کسی مناسب عمل انگیز کا انتظار کر رہے تھے۔ 


کے جی بی کے دو سابق افسروں نے وضاحت کی کہ یہ سارا واقعہ حالات کے ہنرمندانہ ہیرا پھیری پر اکٹھا کیا گیا ہے۔ ہم اس رپورٹ کے دوران ان کے تبصروں پر واپس آتے رہیں گے۔


جیسا کہ پاکستان اور ہندوستان باڑ کی اصلاح جاری رکھے ہوئے ہیں، جیسا کہ ایران، پاکستان اور ہندوستان مشترکہ گیس پائپ لائن ڈالنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں، جیسا کہ پاکستان، افغانستان اور ترکمانستان ایک عظیم اقتصادی اور سٹریٹجک اہمیت کی قدرتی گیس پائپ لائن بچھانے کے لیے ہاتھ ملا رہے ہیں، جیسا کہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن ملک کے طور پر پاکستان کے کردار کی تعریف کرتا رہتا ہے، جیسا کہ چینی ٹھیکیداروں نے پاکستان کے ساتھ ہائی وے کی تعمیر کے کاموں کو آگے بڑھایا ہے۔ حکومت بلوچستان کو قانون کی بالادستی میں لانے اور دہشت گردوں اور منشیات فروشوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خاتمے کے لیے کوششیں کر رہی ہے، جیسا کہ پورا خطہ دہشت گردی کے خاتمے اور دور دراز علاقوں میں خوشحالی لانے کے لیے نئے طویل المدتی ماڈل تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے، بلوچستان کی بنجر اور دشمن پہاڑیوں میں ایک جان لیوا کھیل جاری ہے۔ لینز کیچڑ والے ہیں؛ دوستوں سے دشمنوں میں فرق کرنے کے لیے کوئی واضح شعبے نہیں ہیں۔


شروع میں ہم واضح کرنا چاہیں گے کہ جب ہم، ہندوستانی کہتے ہیں تو ہمارا مطلب کچھ ہندوستانی ہیں نہ کہ ہندوستانی حکومت کیونکہ ہمارے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ آیا پاکستان میں کچھ ہندوستانی شہریوں کی سرگرمیاں ان کی حکومت کی سرکاری پالیسی کی نمائندگی کرتی ہیں یا یہ محض کچھ افراد یا تنظیموں کی مہم جوئی ہے۔ جب ہم ایرانی یا افغان کہتے ہیں تو ہمارا مطلب صرف یہ ہوتا ہے: کچھ ایرانی یا افغان۔ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ بلوچستان میں ایرانی اور افغان کھلاڑی اپنے اپنے ممالک کے مفادات کی تکمیل کی کوشش کر رہے ہیں یا ان کی وفاداریاں کہیں اور ہیں۔


لیکن - اور یہ بڑے حروف کے ساتھ BUT ہے - جب ہم کہتے ہیں کہ امریکی یا روسی، ہمارے پاس شک کرنے کی وجوہات ہیں کہ بلوچستان میں امریکی اور روسی مداخلت کو کم از کم جزوی طور پر پینٹاگون (اگر وائٹ ہاؤس نہیں) اور کریملن نے منظور کیا ہے۔


ہم یہ بھی تسلیم کرنا چاہیں گے کہ جو تصویر ہم نے اکٹھی کی ہے وہ مکمل نہیں ہے اور KGB کے دو سابق اہلکاروں کے وضاحتی تبصروں کے علاوہ، ہمارے پاس نقطوں کو کسی بھی معنی خیز ترتیب میں جوڑنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ ایمانداری کی خاطر اس کہانی کو اچانک اور نامکمل ہی رہنا چاہیے۔


جنوری 2002 میں زوم کرنے سے پہلے، آئیے پس منظر کو ترتیب دیں۔


ہم نے کے جی بی کے دو سابق افسروں ساشا اور میشا سے مشورہ کیا جو افغانی ہیں 'روسو افغان جنگ کے تجربہ کار' اور وہ بلوچستان کو زیادہ تر پاکستانیوں سے بہتر جانتے ہیں۔ ظاہر ہے، ساشا اور میشا ان کے اصلی نام نہیں ہیں۔ وہ ماسکو کے پرسکون مضافات میں سے ایک میں ایک ہی سڑک پر رہتے ہیں۔ ان کی ریٹائرمنٹ میں دو بانڈز انہیں ایک دوسرے سے باندھتے ہیں: KGB میں فعال ڈیوٹی کے دوران، وہ دونوں روس-افغان جنگ کے دوران بلوچستان کے اکثر سفر کرتے تھے جہاں انہیں پاکستان میں پریشانی پیدا کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔ اور وہ دونوں ووڈکا سے ہوشیار ہیں، جو روسی پوشاک اور خنجر برادری کا لازمی امرت ہے۔ وہ تقریباً ہر روز ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سبز چائے اور کبھی کبھار بورش کے پیالوں پر طویل گفتگو کے لیے ان کو اکٹھا کرنا آسان تھا۔


ہم نے میشا کے سنگل بیڈ روم والے فلیٹ کے ایک درجن سے زیادہ دورے کیے، جہاں ساشا بھی اکثر نہیں ملتی تھیں، اور ہم نے بلوچستان کے حالات پر ان کے دماغ کا انتخاب کیا۔ جب اور جب ہم نے بلوچستان کے بارے میں نئی ​​معلومات کا پتہ لگایا تو ہم تبصرے کے لیے ساشا اور میشا کے پاس واپس گئے۔


جیسا کہ انہوں نے ہمیں بتایا، روس-افغان جنگ کے دوران، سوویت یونین پاکستان کی افغانستان میں ایک تیز اور موثر مزاحمتی تحریک پیدا کرنے کی صلاحیت اور وسائل سے حیران تھا۔ پاکستان کو سزا دینے اور اسی کرنسی میں جواب دینے کے لیے، کریملن نے کچھ ایسی تنظیمیں بنانے کا فیصلہ کیا جو پاکستان میں تخریب کاری کی سرگرمیوں میں مہارت حاصل کریں۔ ایسی ہی ایک تنظیم بی ایل اے (بلوچستان لبریشن آرمی) تھی، جو کے جی بی کی دماغی پیداوار تھی جو بی ایس او (بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن) کے مرکز کے گرد بنائی گئی تھی۔ بی ایس او کوئٹہ اور بلوچستان کے کچھ دوسرے شہروں میں بائیں بازو کے مختلف طلباء کا ایک گروپ تھا۔


میشا اور ساشا کو اصل بی ایل اے کے معماروں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔


ان کی تخلیق کردہ BLA روس-افغان جنگ کے دوران فعال رہی اور پھر یہ سطح سے غائب ہو گئی، زیادہ تر اس وجہ سے کہ اس کی مالی اعانت کا بنیادی ذریعہ - سوویت یونین - منظر سے غائب ہو گیا۔


9-11 کے بعد جب امریکہ بہت کم تیاری اور کم بصیرت کے ساتھ افغانستان میں دوڑتا ہوا آیا تو فوری طور پر ضرورت محسوس کی گئی کہ معلومات اور کارروائی کے ذرائع پیدا کیے جائیں جو حکومت پاکستان سے آزاد ہوں۔


جیسا کہ بش نے پوٹن کی روح میں جھانک کر دیکھا اور اسے ایک اچھا آدمی پایا، رومفیلڈ نے بھی اپنے روسی ہم منصب کی روح میں جھانکنے کا کام کیا اور اسے ایک اچھا کھیل پایا۔ اس کا نتیجہ روسی سابق فوجیوں کی طرف سے وسیع اور فراخدلانہ مشاورت کی صورت میں نکلا جو افغانستان اور بلوچستان کے بارے میں اس سے زیادہ جانتے تھے جس کی امریکیوں کو کبھی امید نہیں تھی۔


غالباً اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ جب تک ان کے مفادات ایک دوسرے سے براہ راست ٹکراؤ نہیں کریں گے، امریکہ (یا کم از کم پینٹاگون) اور کریملن بلوچستان میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے۔


یہ ہمیں جنوری 2002 تک لے آتا ہے۔


میشا نے موجودہ وقت کے بی ایل اے کے بارے میں کہا جس پر بلوچستان میں تخریب کاری کی زیادہ تر سرگرمیوں کا الزام عائد کیا جاتا ہے، "درحقیقت، زیادہ تر عناصر اپنی جگہ پر تھے، اگرچہ غیر فعال تھے، اور کسی بھی شخص کے لیے کافی وسائل کے ساتھ پوری چیز کو دوبارہ فعال کرنا مشکل نہیں تھا۔"


جنوری 2002 میں، "انسٹرکٹرز" کی پہلی کھیپ افغانستان سے پاکستان پہنچی تاکہ پہلا تربیتی کیمپ لگایا جا سکے۔ یہی وہ بیج تھا جس سے موجودہ شورش پھوٹ پڑی ہے۔


اس وقت یہ ایک معمولی کوشش کی طرح لگتا تھا۔


صرف دو ہندوستانی، دو امریکی اور ان کا افغان ڈرائیور گائیڈ ایک دھندلے بھورے رنگ کی ٹویوٹا ہائی لکس ڈبل کیبن SUV میں سوار تھے جو افغانستان میں رشید قلعہ کے قریب سرحد عبور کر کے 17 جنوری 2002 کو پاکستانی صوبہ بلوچستان کے مسلم باغ میں آئے۔ سفر کے اس حصے کے لیے، انہوں نے بے قاعدہ ٹریلز کا استعمال کیا۔ مسلم باغ سے کوہلو تک وہ باقاعدہ لیکن کم کثرت والی سڑکوں پر چلتے تھے۔


کوہلو میں ان کی ملاقات کچھ بلوچ نوجوانوں سے ہوئی اور ایک امریکن کوہلو میں ٹھہرا جبکہ دو ہندوستانی اور ایک امریکی ڈیرہ بگٹی گئے اور کچھ دنوں کے بعد واپس آئے۔ انہوں نے اگلے دو ہفتے کچھ بلوچ کارکنوں اور ان کے سرپرستوں کے ساتھ گہری مشاورت میں گزارے اور پھر کیمپ لگانے کا کام شروع ہو گیا۔


میشا نے کہا، "بالاچ ہمارے اچھے لڑکوں میں سے ایک تھا اور اگرچہ میں نہیں جانتی کہ موجودہ آپریٹر کون ہیں، لیکن یہ محفوظ طریقے سے کہا جا سکتا ہے کہ بالاچ کی وجہ سے کوہلو کو پہلا اڈہ منتخب کیا گیا ہو گا،" میشا نے کہا۔


بالاچ مری نواب خیر بخش مری کے بیٹے ہیں اور انہوں نے ماسکو سے الیکٹرانک انجینئر کے طور پر کوالیفائی کیا تھا۔ جیسا کہ اس زمانے میں رواج تھا، روس میں کسی بھی بلوچ طالب علم کو KGB کی طرف سے فعال اور شاندار طریقے سے پروان چڑھایا جاتا تھا۔ بالاچ ان کی کامیابی کی کہانیوں میں سے ایک تھا۔


بھارت اور روس کے ساتھ گہرے روابط کی وجہ سے، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں تھی کہ بالاچ مری کو بحال ہونے والی بی ایل اے کے نئے سربراہ کے طور پر منتخب کیا گیا۔ کوہلو اور کاہان کے درمیان پہاڑوں کا تعلق میرس سے ہے۔


پہلے کیمپ میں تقریباً 30 نوجوان تھے اور ابتدائی کلاسیں جن میں بنیادی طور پر تربیتی لیکچرز شامل تھے۔ اہم موضوعات یہ تھے: 1. بلوچوں کی آزادی کا حق، 2. عظیم تر بلوچستان کا تصور، 3. سیاسی جدوجہد کے آلے کے طور پر تخریب کاری، 4. پنجاب پر ظلم اور مظلوم قوموں کی حالت زار، اور 5. عوامی احتجاج کے میڈیا دوست طریقے۔


"دستی، رہنما خطوط اور یہاں تک کہ لیکچر کے منصوبے Kometit [KGB] آرکائیوز میں دستیاب تھے۔ میڈیا کی بات چیت کے علاوہ، انہوں نے عملی طور پر پرانے منصوبوں کی پیروی کی،" ساشا کو بتایا۔


جیسا کہ منطقی تھا، چھوٹے ہتھیاروں اور تخریب کاری کی تربیت جلد ہی نصاب میں داخل ہو گئی۔ اسلحہ اور گولہ بارود کی پہلی کھیپ افغانستان سے موصول ہوئی لیکن جیسے جیسے کیمپوں کی تعداد بڑھی، ہندوستان سے سپلائی کے نئے راستے کھل گئے۔


کشن گڑھ ایک چھوٹا سا ہندوستانی قصبہ ہے جو پاکستان کی سرحد سے بمشکل پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جہاں پنجاب اور سندھ کے صوبے ملتے ہیں۔ وہاں ایک سپلائی ڈپو اور ایک تربیتی مرکز ہے جو بلوچستان سمیت پاکستان میں عسکریت پسندوں کے تربیتی کیمپوں سے رابطے رکھتا ہے۔


کشن گڑھ سے تقریباً 90 کلومیٹر کے فاصلے پر شاہ گڑھ کے قریب ایک لاجسٹک سپورٹ ڈپو بھی ہے، جو ہندوستانی سپلائی اور ماہرین کے لیے لانچنگ پیڈ کا کام کرتا ہے۔


ماضی میں یہ غیر اہم اسٹیشن تھے لیکن جنوری 2002 کے بعد جب بلوچستان غیر ملکی سرگرمیوں کی ایک نئی لہر کا مرکز بن گیا تو ان کی اہمیت بڑھتی گئی۔


بھارت سے بلوچستان منتقلی کا طریقہ آسان ہے۔


اسلحہ اور سازوسامان جیسے کہ کلاشنکوف، ہیوی مشین گن، چھوٹی اے اے گن، آر پی جی، مارٹر، بارودی سرنگیں، گولہ بارود اور مواصلاتی آلات کو کشن گڑھ اور شاہ گڑھ سے اونٹ کی پشت پر پاکستان کی طرف منتقل کیا جاتا ہے اور پھر انہیں سامان کے ٹرکوں میں منتقل کیا جاتا ہے، جس کے اوپر کچھ جائز کارگو ہوتا ہے اور سارا بوجھ شیٹروں سے ڈھکا جاتا ہے۔ اسلحہ اور سازوسامان، ایک اصول کے طور پر، CKD یا SKD فارم میں باکسڈ ہوتے ہیں۔


سوئی تک پہنچنے کے لیے ٹرکوں کو صرف 140 یا 180 کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑتا ہے اور کوہلو تک پہنچنے کے لیے کچھ اور فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے، یہ فاصلہ صرف چند گھنٹوں میں طے کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب سے آسان راستہ ہے کیونکہ افغانستان سے کسی بھی چیز کو ان علاقوں میں منتقل کرنے کے لیے کافی مضبوط گاڑیوں کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ دشوار گزار خطوں پر طویل فاصلہ طے کرتی ہیں۔


چھوٹے ہتھیار اور ہلکے سازوسامان زیادہ تر روسی نژاد ہیں کیونکہ یہ آسانی سے دستیاب، سستے اور کسی ایک ذریعہ سے تلاش کرنا مشکل ہے۔


یہ راستہ پاکستانی گیس پائپ لائنوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے بھی کارآمد ہے کیونکہ سوئی پائپ کی دو اہم شریانیں - سوئی-کشمور-اچ-ملتان اور سوئی سکھر- بعض مقامات پر، بھارتی سرحد سے 45 کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر گزرتی ہیں۔


جس نے بھی ان کیمپوں اور اس کے نتیجے میں شورش کی منصوبہ بندی کی، اسے بھارتی را سے بھرتی اور انفراسٹرکچر میں ابتدائی مدد حاصل کرنی پڑی۔


ساشا نے کہا، "جب ہم نے پہلی بار بی ایل اے کا کام شروع کیا تو را سے مدد مانگنا منطقی تھا کیونکہ ان کے پاکستان میں کئی ہزار زمینی رابطے ہیں، جن میں سے اکثر بلوچستان میں ہیں،" ساشا نے کہا۔


میشا نے مزید کہا کہ "جو بھی پاکستان میں دکان لگانا چاہتا ہے اسے را پر جھکاؤ رکھنا چاہیے۔"


وقت کے ساتھ ساتھ کیمپوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور اب بلوچستان میں عدم استحکام کا ایک بڑا مثلث ہے جس میں تقریباً 45 سے 55 تربیتی کیمپ ہیں، ہر کیمپ میں 300 سے 550 عسکریت پسند موجود ہیں۔


ان کیمپوں میں بڑی مقدار میں نقدی بہہ رہی ہے۔ امریکی دفاعی کنٹریکٹرز - ایک عام اصطلاح جو پینٹاگون کے کارندوں پر لاگو ہوتی ہے شہری، سی آئی اے کے فوجی، دوہرے بھیس میں اکسانے والے، قسمت کا شکار کرنے والے، سابق فوجیوں اور فری لانسرز - مبینہ طور پر افغانستان سے بلوچستان منتقل کرنے میں بڑا کردار ادا کر رہے ہیں۔ امریکیوں کے ساتھ ہمیشہ ان کے افغان گائیڈ اور ترجمان ہوتے ہیں۔


عسکریت پسندوں کی تنخواہوں کا ڈھانچہ اب کافی حد تک متعین ہے۔ عام بھرتی ہونے والے اور بنیادی باغیوں کو ماہانہ تقریباً 200 امریکی ڈالر ملتے ہیں، جو ہر اس شخص کے لیے ایک چھوٹی سی خوش قسمتی ہے جسے کبھی اپنے آبائی شہروں میں کوئی اچھی سرکاری نوکری ملنے کی امید نہیں ہوتی ہے۔ سیکشن لیڈرز کو 300 امریکی ڈالر سے زیادہ حاصل ہوتا ہے اور کسی کام کو کامیابی کے ساتھ انجام دینے کے لیے خصوصی بونس ہیں۔


اگرچہ مخصوص کاموں کے لیے انعام کی کوئی صحیح رقم کا تعین نہیں کیا جا سکتا ہے، لیکن کوئی یہ فرض کر سکتا ہے کہ یہ کافی ہونا چاہیے کیونکہ BLA کے کچھ کارکنوں نے حال ہی میں دالبندین، نوشکی، کوہلو، سبی، خضدار اور ڈیرہ بگٹی میں نئے گھر بنائے ہیں۔ اس کے علاوہ، کچھ نوجوان بلوچ کارکنوں نے حال ہی میں نئی، چمکدار SUVs حاصل کی ہیں۔


عجیب بات یہ ہے کہ کچھ بلوچ کارکنوں کی نئی دولت کی پیمائش کے لیے بھی ایک غیر معمولی اشارہ ہے۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں خواجہ سراؤں کے ناچنے والے ٹولے اور کرنسی نوٹوں کی بارش پہلے سے کہیں زیادہ کر رہے ہیں۔


تربیتی کیمپوں کے جغرافیائی پھیلاؤ کی بنیاد پر کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ بلوچستان میں انتہائی عدم استحکام کا مثلث موجود ہے۔ اس مثلث کو نقشے پر تین اہم نکات کے طور پر بارکھان، بی بی نانی (سبی) اور کشمور کو لے کر کھینچا جا سکتا ہے۔


ایک اور، بڑا، مثلث ہے جو پہلے مثلث کے لیے ایک قسم کا کشن فراہم کرتا ہے۔ یہ نوشکی، وانا (صوبہ سرحد میں) اور کشمور سے مل کر بنتا ہے۔


درحقیقت بلوچستان کا منظر نامہ ایسا ہے کہ یہ کئی محفوظ ٹھکانے فراہم کرتا ہے، جو باہر کے لوگوں کے لیے ناقابل رسائی ہے۔


ساحلی پٹی سے شروع ہو کر مکران کوسٹل رینج، سیہان رینج، راس کوہ، سلطان کوہ اور چاغی کی پہاڑیاں ہیں جو زمین کو مشرق و مغرب کی سمت کاٹ رہی ہیں۔ شمال-جنوبی سمت میں، ہمیں سلیمان سلسلہ، کیرتھر سلسلہ، پالا سلسلہ اور وسطی براہوی سلسلہ ملتا ہے جو گہری اور ناقابل رسائی جیبوں کی تشکیل کا کام مکمل کرتے ہیں۔ ساحلی پٹی اور بالائی بلوچستان کے درمیان چند راست راستے ممکن ہیں۔ صرف دو سڑکیں بلوچستان کو باقی ملک سے ملاتی ہیں۔ 


عدم استحکام کے مثلث کے علاوہ جن کا ہم نے ذکر کیا ہے وہاں ایک قوس ہے، ایک وسیع، دھیرے دھیرے مڑے ہوئے کوریڈور، جس میں وسیع سرگرمی ہے۔ اس راہداری میں کون کیا کر رہا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔


نقشے پر اس آرک کوریڈور کو کس طرح کھینچنا ہے: شاہ اسماعیل اور زیارت سلطان ویس قرنی کے چھوٹے افغان قصبوں کو نقشے پر نشان زد کریں۔ پھر ایران میں جلق اور کوہاک کے قصبوں کو نشان زد کریں۔ اب، شاہ اسماعیل کو کوہاک سے جوڑنے کے لیے ایک دھیرے سے محراب والا وکر کھینچیں اور زیارت سلطان ویس قرنی کو جلق سے جوڑنے کے لیے ایک اور موڑ کھینچیں۔ ان دو منحنی خطوط سے بننے والا کوریڈور بہت ساری مختلف سرگرمیوں کا منظر ہے اور ہم اس کے بارے میں صرف کچھ سطحی معلومات اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔


دالبندین اور نوشکی کے قصبے جہاں غیر ملکیوں کی موجودگی معمول کی بات بن گئی ہے اس راہداری میں واقع ہیں۔


مختلف ادارے اس راہداری کے مختلف استعمال کر رہے ہیں۔ کچھ مقامی مدد لینے کے باوجود، ہم اس راہداری میں جس قسم کی سرگرمیاں بُل رہی ہیں اس کے بارے میں بہت کم معلومات حاصل کر سکے۔


ہم نے پایا کہ زاہدان، ایران میں ہندوستانی قونصل خانے نے زاہدان میں ہوٹل امین کے قریب خیابان دانشگاہ کے پاس ایک مکان کرایہ پر لیا ہے۔ یہ گھر کچھ لوگوں کو رہنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو افغانستان سے پاکستان اور پاکستان سے ایران تک اس محراب والی راہداری کے ذریعے آتے ہیں جو ہم نے بیان کیے ہیں۔ لیکن وہ لوگ کون ہیں اور کیا کر رہے ہیں، ہمیں نہیں مل سکا۔


ہم نے یہ بھی پایا کہ اگرچہ پاسداران (انقلابی گارڈز)، جو براہ راست خامنہ ای کے زیر کنٹرول قابل اعتماد فورس ہے، زاہدان تافتان سڑک کی نگرانی کر رہی ہے، لیکن خاش اور جلق کے درمیان سڑک پر پاسداران کی کوئی باقاعدہ چیک پوسٹ نہیں ہے، جس کی وجہ سے ہر قسم کے عناصر کے لیے یہاں سے گزرنا آسان ہے۔


ہم نے یہ بھی پایا کہ افغانستان اور ایران کے درمیان سرحد زیادہ تر پاسداران کے کنٹرول میں ہے جو کسی بھی غیر قانونی سرحدی نقل و حرکت پر سختی سے اترتے ہیں اور اسی وجہ سے پاکستان سے گزرنے والی محرابی راہداری کسی بھی افراد اور گروہوں بشمول امریکی 'دفاعی ٹھیکیداروں' اور ان کے افغان ساتھیوں کے لیے پسندیدہ راستہ ہے جنہیں ایران کی سرحد کے اس پار یا اس کے قریب جانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔


حیرت کی بات نہیں کہ اس راہداری کا کچھ حصہ ایرانی خود استعمال کرتے ہیں جب وہ پاکستان میں کچھ جوش پیدا کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ ایرانی بھی زاہدان-کوئٹہ کی باقاعدہ سڑک کا استعمال کرتے ہیں جب وہ قانونی دستاویزات کے ساتھ کسی کو ڈھونڈ سکتے ہیں جیسا کہ ایک ایرانی کے ساتھ ہوا تھا جس کے پاکستان اور ایران دونوں میں کاروباری مفادات ہیں اور جو 7 جنوری کی مصیبت شروع ہونے سے پہلے کوئٹہ آیا تھا۔ اس کے بعد سے اس کی کوئی بات نہیں سنی گئی۔


ایک ساحلی رابطہ ہے جو دبئی اور عمان کے عناصر کو بلوچستان میں عسکریت پسندوں سے رابطہ کرنے کے لیے مفت رسائی فراہم کرتا ہے۔ یہ ایک ڈھیلے طریقے سے طے شدہ راستہ ہے لیکن بلوچستان میں تین اہم لینڈنگ پوائنٹس ہیں: خلیج گوٹر کا مشرقی ہونٹ جو ایرانی علاقے میں واقع ہے لیکن غیر محفوظ زمینی سرحد کے ذریعے پاکستان کے لیے آسان کراس اوور فراہم کرتا ہے۔ 2. بومرا اور خور کلمت کے درمیان کھلی جگہ؛ اور 3. گوادر مشرقی خلیج کا مشرقی کندھا۔


کچھ ہندوستانی، جو کہ تاجروں اور جرائم مافیا کے متجسس مرکب ہیں، دبئی یا عمان سے ماہی گیری کی کشتیوں میں آئے اور 7 جنوری کے پھٹنے سے پہلے ایرانی علاقے میں واقع گوٹر بے پر اترے۔ وہاں سے وہ خضدار اور پھر کوئٹہ گئے جہاں ان کی ملاقات کچھ بلوچ عسکریت پسندوں سے ہوئی۔ ان علاقوں میں یہ افواہ ہے کہ ہندوستانی بھاری مقدار میں نقدی لے کر آئے تھے لیکن اس کی تصدیق کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ انہیں دونوں راستوں سے کچھ سراوانی بلوچوں نے لے جایا جو اپنے ماہی گیری کے جہاز چلاتے ہیں۔


اس کے ساتھ ہی ہمارے واشنگٹن کے نمائندے کی طرف سے یہ خبریں بھی آئی تھیں کہ پینٹاگون کے کچھ ’ذرائع‘ میڈیا کو یہ کہانی ’لیک‘ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ امریکی اور اسرائیلی ایران کے اندر مشترکہ کارروائیاں کر رہے ہیں اور اس مقصد کے لیے وہ پاکستانی سرزمین کو لانچنگ پوائنٹ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ لیک کو آخر کار دی نیویارک کے سیمور ہرش نے اٹھایا اور پھیلا دیا۔


تاہم، علاقے میں ہمارے اپنے مشاہدات سے ہم اس رپورٹ کی تصدیق نہیں کر سکے، حالانکہ اس بات کا امکان ہے کہ ہم نے جس گھماؤ والی راہداری کی نشاندہی کی ہے اسے امریکیوں اور اسرائیلیوں نے افغانستان سے پاکستان اور پھر ایران اور واپس جانے کے لیے استعمال کیا ہو، حالانکہ یہ محض قیاس ہے، اس علاقے میں غیر ملکیوں کی نقل و حرکت کی بنیاد پر، اور ہم اس رپورٹ کی تصدیق نہیں کر سکتے۔


اس کے علاوہ، کچھ چہ مگوئیاں تھیں، جیسا کہ نئی دہلی میں ہمارے نامہ نگار نے اطلاع دی ہے کہ کچھ اعلیٰ حلقے اسلام آباد کو امن مذاکرات میں شامل کرنے کی دو چہروں والی پالیسی کی حکمت پر سوال اٹھا رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ بلوچستان میں باغیوں کی سرگرمیوں کی حمایت کر رہے ہیں۔


یہ بھی واضح نہیں تھا کہ جب ایران کو امریکہ کی طرف سے ایک جنگ کا سامنا ہے تو ایران بلوچستان میں بحران پیدا کرنے میں کیوں دلچسپی لے گا اور اسے تمام اتحادیوں کی ضرورت تھی جو وہ اپنے ساتھ جمع کر سکتا تھا اور ان اتحادیوں میں سے ایک ممکنہ طور پر پاکستان بھی ہو سکتا ہے۔ بلوچستان میں ایرانی مداخلت کو اس حقیقت کے ساتھ جوڑنا بھی مشکل تھا کہ ایران پاکستان بھارت گیس پائپ لائن جو کہ ایران کے لیے ایک اہم منصوبہ ہے، مذاکرات کے آخری مراحل میں ہے اور بلوچستان میں مشکلات پیدا کرکے ملے جلے اشارے بھیجنے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔


یاد رہے یہ رپورٹ 2005 میں شائع ہوئی لیکن آپ دیکھیں گے کہ 20 سال گزرنے کے باوجود کھیل اور کھلاڑیوں میں فرق آیا ہے نا حالات و واقعات میں۔


یہ رپورٹ اس وقت بھی نیوز سنٹرل ایشاء کی ویب سائٹ کے آرکائیوز میں موجود ہے۔


حصہ دوئم 


یہ کچھ سوالات تھے جو ہم نے میشا اور ساشا سے کیے اور ان کی وضاحت یہ ہے۔ ان کے جوابات ٹکڑوں اور ٹکڑوں میں آئے لیکن ہم نے ان کے جوابات کو ایک مربوط انٹرویو کی شکل میں دوبارہ ترتیب دیا ہے:


سوال: افغانستان پر روسی حملے کا مقصد کیا تھا؟


میشا: سوویت یونین کو خود افغانستان سے پیار نہیں تھا اور اب تک سب سمجھ چکے ہوں گے۔ ہم، یا کم از کم ہمارے رہنما بحر ہند کے گرم پانیوں تک ایک آسان راہداری چاہتے تھے - خیال یہ تھا کہ پہلے کابل میں مکمل کنٹرول قائم کیا جائے اور وہاں سے پختونستان اور گریٹر بلوچستان کی ڈبل بوگی کو بڑھایا جائے اور بلوچستان کے کم از کم ایک حصے کو پاکستان سے الگ کرنے کی کوشش کی جائے اور یا تو اسے افغانستان کے ایک نئے صوبے کے طور پر ضم کیا جائے یا پھر ایک نیا صوبہ بنا دیا جائے جو کہ افغانستان کے کنٹرول میں ہو۔ اس سے کریملن کو درپیش بیشتر مسائل حل ہو جاتے۔


سوال: جب آپ نے 1980 کی دہائی میں BLA بنانے میں مدد کی تو آپ کے ذہن میں کیا مقاصد تھے؟


ساشا اور میشا: یہ پاکستان میں مسائل پیدا کرنے کا محض ایک آلہ تھا۔ کوئی نظریاتی وجوہات نہیں تھیں۔ یہ ایک اسٹریٹجک مسئلے کا محض ایک عملی حل تھا۔


سوال: اتنے سالوں کی غیرفعالیت کے بعد بی ایل اے کو کون زندہ کر سکتا تھا؟


میشا: غالباً، پینٹاگون۔ کریملن کی طرف سے بہت اچھی حمایت کے ساتھ۔ آپ کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ایسی تنظیم کو بحال کرنا ایک مشکل کام ہے اور اس کے لیے متعدد کھلاڑیوں کے فعال تعاون کی ضرورت ہے۔ پینٹاگون اور کریملن RAW کی مدد کے بغیر بہت کچھ نہیں کر سکیں گے جس کے پورے بلوچستان میں سینکڑوں فعال رابطے ہیں۔ روس بالاچ مری کی اس منصوبے میں شمولیت پر بات چیت میں مدد کر سکتا تھا۔


ساشا: را نے موقع پر چھلانگ لگا دی ہوگی کیونکہ گزشتہ جولائی میں قندھار، جلال آباد اور زاہدان میں ہندوستانی قونصل خانوں میں 'صوابدیدی گرانٹس' بجٹ [جاسوسی فنڈ کے لیے ایک خوشامد] میں 700 فیصد اضافہ کیا گیا تھا۔


میشا: ہاں، صوابدیدی گرانٹس مرکزی آڈٹ کے تابع نہیں ہیں اور اسٹیشن چیف اس کے ساتھ جو چاہے کر سکتا ہے۔


ساشا: بالچ ممکنہ طور پر روسی سہولت کے ذریعے بحال ہونے والی بی ایل اے کی سربراہی کے لیے آئے تھے لیکن آپ سردار عطاء اللہ مینگل کے لیے ایسا نہیں کہہ سکتے۔ وہ لندن میں اپنی خود ساختہ جلاوطنی سے واپس آئے اور کوہلو میں اپنا ہیڈکوارٹر قائم کیا۔ کیا یہ محض اتفاق تھا؟ مجھے ایسا نہیں لگتا۔ تمام امکان میں، وہ بالاچ پر نظر رکھنے والا امریکی آدمی ہے کیونکہ امریکی کبھی بھی روسیوں پر مکمل اعتماد نہیں کر سکتے۔


سوال: آپ کے تبصروں سے لگتا ہے کہ بالاچ اور مینگل زندہ ہونے والی بی ایل اے کی سربراہی کر رہے ہیں اور بی ایل اے کو امریکیوں اور روسیوں نے بلوچستان میں مشکلات پیدا کرنے کے لیے دوبارہ زندہ کیا ہے لیکن کیا آپ ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی سمجھے جانے والے پاکستان کو پریشان کرنے کے لیے اس حد تک جانے کی کوئی مربوط وجوہات بتا سکتے ہیں؟


میشا اور ساشا: [میشا اتنی زور سے ہنسی کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے جبکہ ساشا محض غائبانہ انداز میں مسکراتی رہی] 'فرنٹ لائن' اتحادی؟ کیا تم مذاق کر رہے ہو؟ امریکی پاکستان کو استعمال کر رہے ہیں اور پاکستانیوں کو جلد ہی اس کا پتہ چل جائے گا اگر انہوں نے پہلے ہی نہیں کیا ہے۔ امریکیوں کو اس قسم کے اتحادیوں کی ضرورت نہیں ہے اور انہوں نے یہ بات ہر اس شخص کے لیے واضح کر دی ہے جو ان کے پالیسی مقاصد کو درست طریقے سے پڑھ سکتے ہیں۔ انہیں ایران کے ساتھ معاملہ کرنے دیں اور آپ دیکھیں گے۔ اگر اس خطے میں کوئی مطلوبہ امریکی اتحادی ہو سکتا ہے تو وہ ہے ایران - ایک مختلف حکومت کے تحت ایران، اور وہ اس مقصد کے لیے کام کر رہے ہیں۔ بلوچستان کے علاوہ باقی پاکستان ان کے لیے بے کار ہے۔


سوال: آپ کے جواب سے ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ پینٹاگون اور کریملن بلوچستان میں مشکلات پیدا کرکے کیا حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں؟


ساشا: اس خطے میں امریکیوں کے دو طویل مدتی پالیسی مقاصد ہیں: پہلا، وسطی ایشیا کے توانائی کے تمام وسائل کو براعظم امریکہ تک لے جانے کے لیے ایک محفوظ اور قابل اعتماد راستہ بنانا، اور دوسرا، چین پر قابو پانا۔


میشا: بلوچستان بحر ہند اور وسطی ایشیا کے درمیان سب سے کم فاصلہ پیش کرتا ہے، یعنی خلیج سے باہر سب سے کم فاصلہ۔ جس وقت حالات ٹھیک ہوں گے، امریکی چاہیں گے کہ وسطی ایشیا کا سارا تیل اور گیس گوادر یا پسنی اور وہاں سے امریکہ لے جائے۔


سوال: اگر امریکی بلوچستان کے ذریعے توانائی کے وسائل کی ترسیل کے لیے محفوظ چینل بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو وہ وہاں پریشانیوں کی حوصلہ افزائی کیوں کریں گے؟


میشا: یہ ابھی کے لیے ہے۔ مصیبت کو ہوا دے کر، وہ ٹرانس افغان پائپ لائن یا کسی دوسرے منصوبے کی مؤثر طریقے سے حوصلہ شکنی کریں گے جس کا مقصد وسطی ایشیائی وسائل کو جنوبی ایشیا میں بھیجنا ہے۔ وہ مناسب قیمت پر تیل اور گیس حاصل کرنے کی اجازت دے کر جنوبی ایشیائی معیشتوں کو مضبوط کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ وہ اپنے ملک میں جو کچھ کر سکتے ہیں لے جانے میں زیادہ دلچسپی لیں گے اور اگر یہ انتخاب ہے تو باقی سب کو بھوکا مرنے دیں۔


ساشا: امریکی یہ بھی چاہیں گے کہ چین کو بلوچستان میں پہلے سے زیادہ ترقیاتی منصوبے شروع کرنے سے روکا جائے۔ بلوچستان میں بندرگاہ اور سڑکوں کو ترقی دے کر، چین بالآخر تجارت کے لیے ایک آسان نالی بنا کر اپنی مدد کر رہا ہے جو چین کو بیک وقت وسطی ایشیا، جنوبی ایشیا اور ہر موسم والی بلوچستان کی بندرگاہوں سے جوڑے گا۔ جگہ محدود ہے - جہاں چین فائدہ اٹھاتا ہے، امریکہ ہارتا ہے۔ اور جہاں امریکہ کو فائدہ ہوتا ہے وہاں چین ہار جاتا ہے۔


سوالات: ٹھیک ہے۔ یہ قابل فہم لگتا ہے۔ لیکن روس کو اس مشکل بلوچستان منصوبے میں پینٹاگون کی مدد کرنے میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟


ساشا: روس کے اپنے پالیسی اہداف ہیں اور جہاں تک بلوچستان میں مشکلات پیدا کرنے کے موجودہ مرحلے کا تعلق ہے، امریکی اور روسی مقاصد ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہیں۔ روس وسطی ایشیا کے توانائی کے تمام وسائل پر اپنی اجارہ داری برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ اس وقت وسطی ایشیائی ممالک اپنی گیس کی کسی بھی قابل قدر منڈیوں میں برآمد کے لیے مکمل طور پر روس پر منحصر ہیں۔ اگر ٹرانس افغان یا کوئی اور منصوبہ کامیاب ہو جاتا ہے تو اس سے اخراج کے راستے کھل جائیں گے۔ وسطی ایشیائی ممالک سمجھ بوجھ سے اس مارکیٹ میں پہنچیں گے جو 100% نقد ادائیگی کرتا ہے اور روس سے بہتر قیمت ادا کرتا ہے۔ لہٰذا یہ بات بالکل واضح ہے کہ بلوچستان کو سرخرو کرکے روس ٹرانس افغان پائپ لائن یا اس سے ملتے جلتے دیگر منصوبوں کی حوصلہ شکنی کی امید کر سکتا ہے۔ روسی معیشت اپنی موجودہ شکل میں Gazprom کی اجارہ داری پر مبنی ہے اور اگر Gazprom نیچے چلا جاتا ہے تو روسی معیشت کسی نہ کسی مرحلے پر ہوگی۔


سوال: اب تک آپ نے جو کچھ کہا ہے وہ کچھ معنی خیز ہے لیکن بلوچستان کی بغاوت میں ہندوستان کے ملوث ہونے کی وضاحت کیسے کریں گے؟


ساشا: ہندوستان کے اپنے سمجھے ہوئے یا حقیقی مقاصد ہیں۔ مثال کے طور پر، بھارت پاکستان کو وسطی ایشیا کے ساتھ براہ راست تجارتی اور نقل و حمل کا راستہ بنانے سے روکنے کے لیے بہت کوشش کرے گا کیونکہ اس سے ایران سے گزرنے والی شمالی-جنوبی راہداری کو نقصان پہنچے گا۔ اس کے علاوہ، اگرچہ توانائی کی شدید قلت نے بھارت کو پاکستان کے ساتھ محدود تعاون بڑھانے پر مجبور کیا ہو گا، لیکن بھارتی نقطہ نظر سے ترجیحی منصوبہ اب بھی ایران-پاکستان-بھارت گیس پائپ لائن ہی ہے۔


میشا: اس کے علاوہ، آپ اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے کہ بھارت وسطی ایشیا سے جڑنے کے لیے افغانستان کو اپنے بنیادی شریانوں کے نظام کے طور پر استعمال کرنے کی تیاری کر رہا ہے اور اگر ہو سکے تو وہ پاکستان کو اس دائرے میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دے گا۔


سوال: ایران کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ایران اس میں فریق کیوں بنے؟


میشا: ایران نے چاہ بہار کی ترقی کے لیے بڑے اخراجات کیے ہیں، یہ بندرگاہ گوادر اور پسنی کی پاکستانی بندرگاہوں کے لیے ایرانی جواب ہے۔ ایران نے ہرات اور چاہ بہار کے درمیان بہترین روڈ لنک بنانے کے لیے بھی بہت کام کیا ہے۔ یہ سب کچھ ضائع ہو جائے گا اگر پاکستانی روٹ لائن پر آتا ہے کیونکہ یہ چھوٹا ہے اور وسطی ایشیا اور بحر ہند کے درمیان فوری سفر کے امکانات پیش کرتا ہے۔


ساشا: ایک ہی وقت میں آپ کو ایران کے ساتھ معاملہ کرتے وقت کچھ حد تک ناقابل اعتبار ہونے کی ضرورت ہے۔ آپ اس بات کا یقین نہیں کر سکتے کہ آیا ان کا مطلب وہی ہے جو وہ کہہ رہے ہیں اور آپ اس بات کا یقین نہیں کر سکتے کہ آیا وہ اپنے وعدوں کو پورا کریں گے۔ وہ وہی کرتے ہیں جو ان کے لئے بہترین ہے اور کسی بھی وعدے کے ساتھ جہنم میں۔ مجھے افسوس ہے لیکن میں ایران کو اسی طرح جج کرتا ہوں۔


سوال: جب کہ آپ دونوں نے بلوچستان میں امریکی، روسی، ایرانی اور ہندوستانی مداخلت کی کچھ وضاحتیں کی ہیں، افغانستان کا کردار کیا ہے؟


ساشا: افغانستان میں کئی بااثر حلقے ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے پاکستان کے شدید مخالف ہیں۔ اگرچہ افغانستان بحیثیت ایک ملک پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی مذموم خواہش کو پناہ نہیں دے رہا ہے، لیکن اس امکان کو رد کرنا مشکل ہے کہ بعض طاقتی حلقے پاکستان کو جہاں کہیں بھی نقصان پہنچانے پر مائل نہیں ہوں گے۔ حالیہ پیش رفت سے واضح ہوتا ہے کہ ہندوستان، ایران اور افغانستان نے جس طرح کسی نہ کسی قسم کا اقتصادی، تجارتی اور نقل و حمل کا اتحاد قائم کرنے کے لیے بڑی پیش رفت کی ہے، پاکستان کو ایسے کسی بھی معاہدے سے باہر کرنے کی تمام کوششیں کی گئی ہیں۔


سوال: جب کہ بی ایل اے کو طاقت کے کئی کھلاڑی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں، کیا اس میں بلوچ عوام کی خدمت کرنے کی کوئی صلاحیت، حتیٰ کہ ایک ضمنی پیداوار کے طور پر بھی ہے؟


میشا اور ساشا: بی ایل اے تالاب کی واحد مچھلی نہیں ہے۔ وہاں بلوچ اتحاد ہے اور پونم ہے اور وہاں بہت سے چھوٹے بھون ہیں۔ لیکن ان میں سے کسی سے بھی بلوچی عوام کے بھلائی کی توقع نہیں کی جا سکتی کیونکہ اس بار کمان زیادہ تر بلوچ سرداروں کے ہاتھ میں ہے اور ان کے پاس اپنے لوگوں کو کوئی فائدہ پہنچانے کا ماضی کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ اگر کچھ بھی ہے تو وہ اپنے ہی لوگوں کو دریا میں بیچنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔


• سردار مہرولا مری نے 1885 میں کھتان علاقے کے تمام معدنی اور پیٹرولیم حقوق برطانوی حکومت کو صرف 200 روپے میں فروخت کر دیے۔ 200 فی مہینہ۔ اس معاہدے کے لیے کوئی وقت کی حد نہیں تھی - جیسا کہ وہ کہتے ہیں، یہ ہمیشہ کے لیے تھا۔


• 1861 میں، بیلہ کے جام نے برطانوی حکومت کو اپنے علاقے میں ٹیلی گراف لائن لگانے کی اجازت دی، اس طرح برطانوی حکومت کو بلوچستان کے بڑے علاقوں پر اپنا کنٹرول مضبوط کرنے میں کافی مدد ملی۔ اس نے 900 روپے سے بھی کم وصول کیا۔ اس کے لیے اپنے ہی لوگوں کے ذریعے ٹیلی گراف لائن کی حفاظت کی ذمہ داری لی۔


• 1883 میں، خان آف قلات نے ضلع کوئٹہ اور اس سے ملحقہ علاقے برطانوی حکومت کو فروخت کر دیے۔ یہ سراسر فروخت تھی۔ دشت میں جس معاہدے پر دستخط ہوئے، اس میں یہ شرط شامل تھی کہ خان آف قلات کے وارث اور جانشین بھی اسی معاہدے کے پابند ہوں گے۔ انہوں نے 25000 روپے سالانہ گرانٹ حاصل کی۔ بلوچستان کا سب سے پرکشش حصہ برطانوی حکومت کو فروخت کرنے پر


اسی سال برطانوی حکومت نے بگتی سردار کو 2000 روپے ادا کئے۔ بگٹی سردار کو ان کے تعاون کے لیے 5500 روپے دیے گئے حالانکہ یہ واضح نہیں کیا گیا تھا کہ انھوں نے برطانوی حکومت کو کس قسم کا تعاون فراہم کیا۔


جب کہ بلوچ سردار جوش و خروش سے بلوچستان کو برطانوی حکومت کو فروخت کر رہے تھے، وہاں پاکستان کے تصور کی کوئی حمایت نہیں تھی جبکہ عام بلوچوں نے پاکستان کی مکمل منظوری دی تھی۔ بلوچستان میں کوئی بھی مثبت پیش رفت سرداروں کے مفادات کے خلاف ہو گی اور صرف ایک احمق ہی ان سے اپنے لوگوں کی بھلائی کے لیے کچھ بھی کرنے کی توقع رکھے گا۔


یاد رہے کہ مری اور مینگل سردار سب سے پہلے پاکستانی حکومت کے خلاف اس وقت کھڑے ہوئے جب بلوچستان میں سرداری نظام کو ختم کرنے کا قانون پاس کیا گیا تاکہ عام بلوچوں کو ان کے قبائلی رہنماؤں کے چنگل سے آزاد کیا جا سکے۔


سوال: بلوچستان میں جس طرح سے معاملات آگے بڑھ رہے ہیں، اس کے ممکنہ نتائج کیا ہوسکتے ہیں؟


میشا: اگر مزید چند مہینوں تک کوئی سخت کارروائی نہ کی گئی تو نتیجہ پاکستان کے دو ٹکڑے ہو سکتا ہے۔


سوال: کیا یہ واحد ممکنہ نتیجہ ہے؟


میشا: نہیں، درحقیقت، یہ سب سے دور کا منظرنامہ ہے لیکن یہ بالآخر ہو سکتا ہے اگر پاکستان صورت حال کا جائزہ لینے، تجزیہ کرنے اور اس سے جلد نمٹنے میں ناکام رہتا ہے۔ مثال کے طور پر، مجھے ابھی تک عام بلوچوں سے رابطہ کرنے کی کوئی پاکستانی کوشش نظر نہیں آئی۔ وہ اب بھی انہی سرداروں کو منانے کی کوشش کر رہے ہیں جو قیام پاکستان کے بعد سے بلیک میل منی پر زندگی گزار رہے ہیں۔


ساشا: میں حیران ہوں کہ پاکستان جس طرح سے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے جا رہا ہے۔ افغانستان میں اپنے چند سالوں کے دوران جب میں بلوچستان کے ساتھ مصروف عمل تھا، میں نے محسوس کیا کہ بلوچ سردار اپنی وفاداریاں اور کچھ بھی ٹوپی کے قطرے پر بیچ دیتے ہیں، لیکن عام بلوچ احمقانہ طور پر محب وطن ہیں۔ انہیں خریدنا مشکل ہے اور جوڑ توڑ کرنا مشکل ہے۔ اگر میں پاکستان کا سرکاری ملازم ہوتا، تو میں کافی عام، پڑھے لکھے بلوچوں کو اکٹھا کرتا تاکہ سردار کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرسکوں اور شورش کے اس پورے غبارے کو خاک میں ملا دوں۔


سوال: آپ دونوں، مان لیں، اصل BLA کے ڈویلپرز میں سے تھے۔ کیا آپ کو اصل اور موجودہ بی ایل اے میں کوئی فرق نظر آتا ہے؟


میشا اور ساشا: کافی۔ اصل بی ایل اے کی قیادت زیادہ تر نوجوان کرتے تھے اور بلوچ سرداروں کا اس سے بہت کم تعلق تھا لیکن موجودہ بی ایل اے سرداروں کے ہاتھوں میں مرکوز ہے۔


بلوچستان میں موجودہ تحریک جس کی قیادت بی ایل اے، پونم اور بلوچ اتحاد کررہے ہیں، قدیم اور جدید کا ایک مماثل مجموعہ ہے۔


وہ ایک جدید میڈیا مہم چلانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس کوشش میں اہم خامیاں ہیں۔ ہمارا وقت مختلف تھا اور ہم میڈیا کی مدد کے بغیر کر سکتے تھے۔ انہوں نے پاکستانی صحافیوں کی ایک فہرست بنائی ہے جنہیں حکومت کے خلاف کسی بھی اقدام پر ہمدردی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور وہ انہیں روزانہ سچ اور جھوٹ کا مرکب کھلا رہے ہیں، یہ عمل پینٹاگون نے مکمل کیا ہے۔


وہ کچھ بلوچ خواتین کو ڈیرہ بگٹی میں لانے میں کامیاب ہوئے لیکن نتائج بہت کم ہوں گے اگر وہ بلوچستان کے دیگر علاقوں میں کارکردگی کو دہرانے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔


انہوں نے اپنی مہم سوئی گینگ ریپ کے ایک ہی واقعے کے گرد بنائی ہے اور اگر حکومت کافی ہوشیار ہے تو وہ اصل مجرموں کو پھانسی دے گی اور زیادتی کا شکار ہونے والی لڑکی سے عوامی طور پر اعلان کرنے کو کہے گی کہ وہ مجرموں کو ملنے والے انصاف سے مطمئن ہے اور یہ BLA مہم کی تمام ہوا کو ختم کر دے گی۔ مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک حقیقی مشکل مہم کو بہت وسیع اور سخت بنانے کی ضرورت ہے۔


سوال: فرضی طور پر، اگر حکومت پاکستان آپ سے مشورہ مانگے، تو آپ کیا مشورہ دیں گے؟


ساشا: اختیارات کم ہیں۔ انہیں فوری طور پر سرداری نظام کو ختم کرنا چاہیے اور پرائیویٹ فوجوں کے خلاف بھرپور کریک ڈاؤن کرنا چاہیے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں پاکستان کا آئین سرداری نظام اور نجی فوجوں کی اجازت نہیں دیتا اور اگر ان قوانین کو ریاستی طاقت کی مدد سے نافذ کیا جائے تو کوئی قانونی سوال نہیں ہوگا۔


میشا: انہیں بات چیت میں عام بلوچوں کی وسیع تر ممکنہ حد کو شامل کرنا چاہیے۔ مری اور مینگل قبائل میں کافی پڑھے لکھے نوجوان قبائلی رہنماؤں کے اثر و رسوخ سے ہم آہنگ ہوسکتے ہیں۔ انہیں بگٹی قبیلے کے ٹکڑوں کو ان کی آبائی زمینوں پر واپس جانے کی بھی اجازت دینی چاہیے اور یہ اس بوڑھے اور سنکی بگٹی کو پرسکون کرنے کے لیے کافی ہو گا جو اس قبیلے کا لیڈر ہونے کا بہانہ کرتے ہیں۔


ساشا: پاکستانی حکومت کو صوبے میں ترقیاتی عمل کو تیز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے روزگار کے مواقع کھلیں گے اور اس سے عام بلوچوں کو اپنے لیڈروں سے دوری اختیار کرنے کا موقع ملے گا۔


میشا: انہیں باغیوں کو اسلحہ اور نقدی کی فراہمی کے ذرائع اور ذرائع کو کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔


 یاد رہے یہ رپورٹ 2005 میں شائع ہوئی لیکن آپ دیکھیں گے کہ 20 سال گزرنے کے باوجود کھیل اور کھلاڑیوں میں فرق آیا ہے نا حالات و واقعات میں۔


یہ رپورٹ اس وقت بھی نیوز سنٹرل ایشاء کی ویب سائٹ کے آرکائیوز میں موجود ہے۔

پہلگام کہانی

  پہلگام کہانی اظہر عباس منگل کے روز جموں کشمیر کے شمال مشرقی علاقے پہل گام میں نامعلوم افراد نے سیاحوں پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کر دی۔ د...